پاکستان

کراچی: ملازمہ کی گھر سے پھندا لگی لاش برآمد

پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فاطمہ نے خودکشی کی، گزری پولیس

کراچی کے علاقے ڈیفنس کے ایک گھر میں نوعمر گھریلو ملازمہ کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی۔

حکام کا کہنا ہے کہ 17 سالہ فاطمہ کی لاش ڈیفنس فیز فائیو میں خیابان بادبان کے ایک بنگلے سے برآمد کی گئی۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کلفٹن ڈاکٹر اسد مَلحی نے ڈان کو بتایا کہ فاطمہ اس گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گھر کے مالکان نے فاطمہ کو پہلی منزل پر کمرہ دیا ہوا تھا، جبکہ وہ خود گراؤنڈ فلور پر رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب فاطمہ صبح معمول کے مطابق کام کرتی نظر نہ آئی تو مالکان اس کے کمرے میں گئے جہاں انہیں اس کی پنکھے سے لٹکی لاش نظر آئی۔

فاطمہ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں 25 سالہ ملازمہ کی پراسرار موت

ڈاکٹر اسد مَلحی نے کہا کہ بظاہر یہ خودکشی کا کیس نظر آتا ہے، تاہم پولیس معاملے کی ہر زاویے سے تحقیقات کر رہی ہے۔

گھر کے مالک سید حسن مظہر نے اپنے بیان میں کہا کہ فاطمہ عام طور پر تقریباً ساڑھے 11 بجے تک نیند سے جاگتی تھی، انہوں نے گھر کی پہلی منزل پر ایک گھنٹی لگائی ہوئی تھی اور گھر کے افراد اسے گھنٹی بجا کر جگاتے تھے۔

سپر ہائی وے پر قائم ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرنے والے حسن مظہر نے مزید کہا کہ انہیں صبح دفتر جانے میں تاخیر ہوگئی تھی اور جب وہ جلدی میں گاڑی کے ذریعے دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد انہیں ان کی اہلیہ کا فون آیا جس میں انہوں نے حسن مظہر کو تمام واقعہ بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اہلیہ کے فون کے بعد فوراً گھر واپس لوٹے، پولیس کو واقعے کی اطلاع دی اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد موت کی اصل وجہ جاننے کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: گھریلو ملازمہ پر تشدد، خاتون سمیت 5 افراد گرفتار

ہسپتال میں فاطمہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم لیڈی میڈیکو لیگل افسر ڈاکٹر نورالنسا چنا نے کیا۔

لیڈی ڈاکٹر نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں واقعے کو خودکشی قرار دیا کیونکہ بظاہر لاش پر زخم کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔

تاہم ڈاکٹر نے موت کی اصل وجہ کو لاش کی تفصیلی جانچ کے لیے مخفی رکھا ہے۔

دوسری جانب گزری پولیس اسٹیشن کے افسر عبدالطیف کا، جن کے تھانے کی حدود میں واقعہ پیش آیا، کہنا تھا کہ لڑکی کے والد عبدالحق نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ ان کی بیٹی اس گھر میں گزشتہ دو سال سے ملازمت کر رہی تھی اور اس نے کبھی اپنے مالکان کے رویے سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ عبدالحق نے اپنے بیان میں گھر کے مالکان پر کوئی الزام بھی نہیں لگایا۔

لڑکی کے اہلخانہ کا احتجاج

تاہم فاطمہ کے اہلخانہ کے افراد نے بعد ازاں گزری پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ فاطمہ نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا۔

فاطمہ کے اہلخانہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس واقعے سے متعلق مقدمہ درج کرنے سے انکار کر رہی ہے۔

تاہم ایس ایس پی جنوبی جاوید اکبر ریاض کا کہنا تھا کہ پولیس حقائق کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنے سے انکار نہیں کرے گی، تاہم پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ اب تک کی پولیس تحقیقات کے مطابق لڑکی کو قتل کیے جانے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔