اچھڑو تھر میں اپنی شناخت کا متلاشی ہندو قبیلہ
اچھڑو تھر میں اپنی شناخت کا متلاشی ہندو قبیلہ
صحراؤں کے بھی اپنے دکھ اور سکھ ہیں۔ ریت کے ٹیلوں، پگڈنڈیوں، جانوروں کے ریوڑ اور انسانی آبادی کو اپنے اندر سمائے ان صحراؤں کے رنگ بھی الگ ہوتے ہیں۔ بارش کا انتظار کرتے لوگوں کی آنکھیں اُس وقت برسنے لگتی ہیں، جب بادل اِن صحراؤں کی ریت پر برسنے سے انکار کردیتے ہیں۔ لیکن آنکھوں کا نمکین پانی ریت کو سینچ نہیں پاتا اور نہ ہی اِن میں زندگی کی بہار لاسکتا ہے۔ لیکن زندگی ہر صورت میں صحراؤں میں اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔
سندھ کے دو بڑے صحرا، تھر اور اچھڑو تھر ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں اِس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ صحرا کا رختِ سفر باندھتے ہیں۔ ایک بار پھر میں اچھڑو تھر کی جانب نکل پڑا۔ اچھڑو تھر ضلع سانگھڑ کے قریب ایک ایسا ریگستان ہے جس کی سفیدی مائل ریت کی وجہ سے اِسے اچھڑو تھر کہا جاتا ہے۔ یہ سندھ کے جنوبی تھر کے علاقے سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ اِس ریت میں نہ تو بارش کے بعد بہتر سبزہ اگانے کی خاصیت ہے اور نہ ہی آپ کو یہاں زیادہ پودے اور درخت نظر آئیں گے۔
دوپہر کو میں کھپرو کے قریب واقع ایک گاؤں، بانکوں چانیہوں پہنچا، جہاں عطا چانیہوں نے اپنا ایک ذاتی میوزیم قائم کر رکھا ہے۔ عطا نے مجھے بتایا کہ آج وہ مجھے اِس صحرا کی وہ خاص دلدلیں دکھانا چاہتے ہیں جو کسی زمانے میں حُروں کے انگریزوں سے لڑی گئی جنگ میں اُن کے ٹھکانے ہوا کرتے تھے۔ اِنہیں سندھی میں 'ڈرینہہ' کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ ریت کے وہ ٹیلے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ہوا کے زور پر یہ بڑے بڑے ٹیلے ہمیشہ حرکت میں ہی رہتے ہیں، اور جب ہوا کچھ دیر کے لیے رک جاتی ہے تو یہ ٹیلے بلند و بالا چٹان کی طرح نظر آتے ہیں، جس کی دوسری جانب ایک گہری کھائی بن جاتی ہے۔