نقطہ نظر

کوئٹہ کا ہزارہ قبرستان، جہاں زندگی کا میلہ سجتا ہے

پارکوں یا تفریحی مقامات کی کمی کی وجہ سے مرد و خواتین کے گروہ اپنے ہر دن کی شروعات قبرستان میں چہل قدمی سے کرتے ہیں۔

میری شکل و صورت دیکھ کر اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ، "کیا آپ چینی ہیں؟

جب میں کہتا ہوں 'نہیں’، تو کہتے ہیں کہ ’پھر تو آپ کا تعلق ضرور ہنزہ سے ہوگا؟'

میرا جواب ہوتا ہے، ’نہیں، میرا تعلق کوئٹہ سے ہے۔'

یہ سن کر وہ فوراً اپنے اندازوں کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہتے ہیں، ’پھر تو آپ ضرور پٹھان ہیں۔’

’نہیں، میں ہزارہ ہوں۔’

’اوہ، تو آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'

جب بھی میں اپنا تعارف کرواتے وقت یہ لفظ سنتا ہوں تو کافی تکلیف ہوتی ہے۔ میرے دیگر دوست بھی جب کسی سے ملتے ہیں تو انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔

قتل و غارت کے واقعات تو جیسے ہماری برادری کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، جیسے چند دن قبل ہی کوئٹہ سے چمن جانے والے ایک ہزارہ گھرانے پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک 12 سالہ بچے سمیت 4 افراد مارے گئے۔

طویل عرصے سے ظلم کا نشانہ بننے اور دیوار سے لگائے جانے کے باوجود ہزارہ لوگ ہار نہیں مانتے اور خود کو زندہ رکھتے ہیں۔ اپنے سروں پر لٹکی تلوار کے سائے میں بھی ہم خون اور گولیوں سے منہ پھیر کر ایک معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں (جس میں ہمیں پراسرار سی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے)۔

اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنے لوگوں اور اپنے علاقے کی کہانی لوگوں تک بھی پہنچاؤں۔ اس مقصد کے لیے میں نے 'ہمارا محلّہ' کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا، جس میں پاکستان کے مختلف محلّوں اور وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو تصویری داستان گوئی کے ذریعے دلچسپ طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی 'واٹ وی لیو بیہائنڈ' (ہم پیچھے کیا چھوڑتے ہیں) ہے، جو کوئٹہ میں مقیم ظلم و ستم کے سائے میں اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہزارہ برادری کی زندگی دکھانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں ان لوگوں کی زندگیوں کی جھلک پیش کی گئی ہے جو تقریباً دو دہائیوں سے دہشت گردی کی تباہیاں اور بربادیاں دیکھ رہے ہیں۔

اس ہولناک ظلم و ستم کے سلسلے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی ثقافت کو فروغ نہیں دے پاتے بلکہ ایک عام شہری جیسی زندگی گزارنے سے بھی قاصر ہیں۔

یہ برادری اب شہر کے مٹھی بھر علاقوں تک ہی محدود ہو چکی ہے، جن میں علم دار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن شامل ہیں، جو ایک پناہ گاہ کے روپ میں کسی جیل سے کم نہیں۔

ویڈیو میں ایک قبرستان دکھایا گیا ہے، یہ ان لوگوں کی قبروں سے بھرا ہوا ہے جو برسا برس سے ہونے والے دہشتگرد حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آ کر مارے گئے۔ لیکن کہانی صرف قبرستان کے بارے میں نہیں ہے۔

بلکہ اس کہانی میں بہت کچھ ہے، یہ کہانی ہے ان لوگوں کی جو اس قبرستان کو ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یوں یہ قبرستان ان کی روز مرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ سا بن جاتا ہے۔ ذرا سوچیے، ایک جگہ جو اپنے آپ میں ایک اظہار ہے، ایک تفریح گاہ ہے اور آپ کا آٰخری ٹھکانہ بھی۔

ایک عمدہ اور خوبصورت قبرستان، جہاں آپ کے آباؤ اجداد دفن ہیں اور وہیں آپ اپنی زندگی کے کئی یادگار پل بھی گزارتے ہیں۔

قبرستان ہمیشہ سے ہی ڈراؤنی جگہ کی علامت رہا ہے، قبرستان لفظ ہی آپ کے دل میں خوف کی ایک عجیب کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔

لیکن کوئٹہ کا ہزارہ قبرستان 'بہشتِ زینب' ان تمام باتوں کو رد کرتا نظر آتا ہے۔

یہاں موت کی آغوش میں سوئے لوگوں کے درمیان خوشیاں جاگتی ہیں۔ عید کے دن لوگ اپنے پیاروں کی یاد منانے اسی قبرستان کا رخ کرتے ہیں، جہاں کچھ طبعی موت مرنے والے تو کچھ مختلف عارضوں کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارنے والے دفن ہیں جبکہ دیگر گولیوں سے چھلنی ہونے والے افراد اپنی آخری آرام گاہوں میں مدفون ہیں۔

پارکوں یا تفریحی مقامات کی کمی کی وجہ سے مرد و خواتین کے گروہ اپنے ہر دن کی شروعات قبرستان میں چہل قدمی سے کرتے ہیں۔

ابھرتا ہوا سورج اپنے ساتھ سنہرا اجالا پھیلاتا جاتا ہے جو رات کے اندھیروں کو ختم کر دیتا ہے، اور زندگی کی ایک نئی ابتدا ہوتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ قبرستان کی خاموشی کو چیر دیتی ہے۔

جب 10 بجتے ہیں تو قبرستان کے اندر واقع سبزی مارکیٹ میں خواتین کا رش بڑھنے لگتا ہے، جہاں آپ ان کی چوڑیوں کی کھنک اور ان کی سریلی آوازوں کو سن سکتے ہیں۔

ان خواتین کے ساتھ یہاں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جن کا شور فضا میں کسی خاندان کی موجودگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کی قبرستان سے قربت نظر آتی ہے۔ امن کا سراب نظر آتا ہے۔

قبرستان میں بازار —تصویر سعادت علی

بازار میں موجود پھلوں کے اسٹال — تصویر سعادت علی

ایک دن میں ایک بوڑھے شخص سے ملا جو اس قبرستان سے گزر رہے تھے۔ میں ان سے گفتگو کرنے سے خود کو روک نہ سکا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ، "میں یہاں چہل قدمی کے لیے اپنے ساتھ اپنے پوتے کو لایا ہوں تا کہ اس کی والدہ سکون سے گھر کا کام کاج کر سکے۔" وہ بچہ بڑی مسرت کے ساتھ اپنی بچہ گاڑی سے آنے والی آوازوں کے ساتھ آس پاس کے نظاروں کو اپنی آنکھوں میں بسا رہا تھا، اپنے آباؤ اجداد کی آخری آرام گاہ میں اسے اپنوں کے درمیان ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔

وہاں سے چند قدم آگے ہی چند بوڑھے آدمی روزانہ درختوں کی پر سکون چھاؤں تلے بڑے آرام سے بیٹھتے ہیں اور اپنے دلچسپ ماضی کے قصوں کو یاد کرتے ہیں۔ باتوں میں ہر کوئی دوسرے پر بازی لینے کی کوشش کرتا ہے، ایک دوسرے کو جملے کسے جاتے ہیں یا پھر خوشی و غمی کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔

ایک بوڑھا شخص اپنے پوتے کے ساتھ قبرستان میں صبح کی سیر کرنے آیا ہے —تصویر سعادت علی

شام اپنے ساتھ دن کی سب سے اہم سرگرمی لے آتی ہے۔ قبروں کے کتبوں کو کسی غم کی علامت سے زیادہ ایک بالکل ہی مختلف مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں سنگ گراگ نامی کھیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جسے صدیوں سے ہزارہ لوگ کھیلتے آ رہے ہیں۔

اس کھیل میں 3 سے 5 کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ہوتی ہیں، کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں گول پتھر تھامے ہوتے ہیں— جو کرکٹ کی گیند جتنا ہوتا ہے— اور باری باری، ان پتھروں کو سلنڈر نما ہدف قرقا کی طرف پھینکتے ہیں۔ قرقا پر پتھر سے لگنے سے آپ کو ایک پوائنٹ مل جاتا ہے۔ جو ٹیم پہلے دس پوائنٹ حاصل کر لیتی ہے وہ جیت جاتی ہے۔

اس کھیل میں تمام عمر کے افراد حصہ لیتے ہیں، حتیٰ کہ 80 سال بوڑھا شخص بھی۔ دیگر لوگ بیٹھ کر اس کھیل کو دیکھتے ہیں اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ نشانہ چونکنے پر قہقہے لگاتے ہیں اور ساتھ تسبیح کے دانے بھی چلاتے رہتے ہیں۔

سنگ گراگ کھیل میں ایک کھلاڑی قرقا کو نشانہ بنا رہا ہے —تصویر سعادت علی

سنگ گراگ کا کھیل دیکھنے ہر عمر کے افراد اکٹھا ہوتے ہیں—تصویر سعادت علی

جیسے رات کی سیاہی قبرستان پر گرتی ہے ویسے ہی لوگ اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں، تا کہ صبح پھر یہاں لوٹیں اور اس زندگی کی محتاج جگہ کو نئی روح پھونکیں۔

آپ شاید یہ سوچیں کہ آخر ایک قبرستان کو ہی کمیونٹی بلڈنگ کے لیے کیوں چنا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں حملوں کا اس قدر خوف پھیلا ہوا ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں تک محدود رہتے ہیں اور اپنی قریبی جگہوں پر ہی تسکین تلاش کرتے ہیں۔

خشک اور سرمئی دیوقامت چٹانیں حملہ آوروں کے خلاف ہماری قدرتی محافظ ہیں۔ —تصویر سعادت علی

یہ قبرستان لوگوں کے لیے ایک ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنے کی ایک محفوظ جگہ ہے کیونکہ اس قبرستان کے تین اطراف موجود پہاڑ اس قبرستان کے محافظ ہیں اور ایک طرف ایک راستہ ہے جو سیدھا ان کے گھروں کو جاتا ہے۔

یوں یہ خشک اور سرمئی دیوقامت چٹانیں ان لوگوں کی محافظ بنی ہوئی ہیں اور انہیں مؤثر تحفظ فراہم کرتی ہیں جو ہمیشہ سے اپنی حفاظت کے لیے بے جان چیزوں اور قدرتی راستوں کا سہارا لینے پر مجبور رہے ہیں۔

ایک صدی سے بھی پرانے اس قبرستان میں جہاں کسی وقت میں اکا دکا لوگ آیا کرتے تھے لیکن اب وہاں ایک پوری برادری اپنی واحد محفوظ جگہ کے طور پر خوب استعمال کرتی ہے، ستم ظریفی تو دیکھیے کہ یہاں لوگ قبروں کے درمیان زندگی کا میلہ سجاتے ہیں اور منظم نسلی و فرقہ وارانہ حملوں اور نفرت کے آگے کبھی ہار نہیں مانتے۔


سعادت علی نے اپنے محلے کی کہانی ثمین داؤد خان کو سنائی جنہوں نے اسے بلاگ کی صورت میں تحریر کیا۔


لکھاری انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر سے کمیونیکیشن ڈیزائن میں بیچلرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں تصویروں کے ذریعے لوگوں کی کہانیاں سنانا پسند ہے۔


یہ بلاگ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

سعادت علی

لکھاری انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر سے کمیونیکیشن ڈیزائن میں بیچلرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں تصویروں کے ذریعے لوگوں کی کہانیاں سنانا پسند ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔