سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ برقرار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے خلاف دائر نثر ثانی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔
خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں فیصلہ سنانے والا 5 رکنی بینچ ان دنوں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نواز شریف اور ان کے بچوں، حسن نواز، حسین نواز، کیپٹن (ر) صفدر اور سمدھی اسحٰق ڈار کی جانب سے 28 جولائی کے فیصلے کے حوالے سے دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، اس بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضال، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔
پاناما پیپرز کیس فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 15 ستمبر کو سنائے گئے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ تمام نظر ثانی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں تاہم اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا
واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نظر ثانی درخواستوں پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ یہ آج صبح 11 بجے سنا دیا جائے گا۔
کچھ لوگوں نے جرائم میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے، شیخ رشید
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے وکلا کوئی نئی دلیل پیش نہیں کرسکے اور وہ نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران گڑھے مردے اکھاڑتے رہے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے جرائم میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے جبکہ ’میں ایل این جی کے معاملے پر قطر جارہا ہوں اور اصل دستاویزات لے کرآؤں گا‘۔
شیخ رشید نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس شریف خاندان کے لیے مہلک ثابت ہوگا، دیکھیں گے کہ حدیبیہ پیپرز ملز پر نیب ایمانداری سے ریفرنس دائر کرتی ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ 28 جولائی کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا جس میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔
عدالت عظمٰی کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ابتدا میں 20 اپریل کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے تحت پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔
25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’جے آئی ٹی دستاویزات کے مطابق نواز شریف نے تنخواہ وصول کی تھی‘
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) نے حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی تو اسے سنا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف لندن کے 4 فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف عزیزیہ اسٹیل ملز، ہل میٹل سمیت بیرونی ممالک میں قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسحٰق ڈار نے ظاہر آمدن سے زائد اثاثے بنائے اُن کے کے خلاف بھی ریفرنس داخل کیا جائے، فریقین کے اقدامات سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ثابت ہو تو شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود، جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی نیب کارروائی کرے۔
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں نیب کو تمام ریفرنسز دائر کرنے کے لیے ٹائم فریم بھی دیا تھا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ نیب احتساب عدالت راولپنڈی میں عدالتی فیصلے کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ریفرنسز داخل کرے، ریفرنسز جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کردہ مواد، ایف آئی اے اور نیب کو حاصل دستاویزات کی روشنی میں داخل کیا جائے، جے آئی ٹی کے بیرون ممالک کو لکھے گئے خطوط کو بھی مدنظر رکھا جائے جبکہ احتساب عدالت ان ریفرنسز کا فیصلہ دائر کیے جانے کے 6 ماہ کے اندر کرے۔
مزید پڑھیں: شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس: نگران جج کی تعیناتی چیلنج
سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 14 ستمبر 2017 کو نیب حکام نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف 3 ریفرنسز جمع کرائے تھے جن میں فلیگ شپ جائیداد، عزیزیہ اسٹیل ملز اور لندن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے ریفرنسز کے حوالے سے ریفرنسز شامل ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس جلد جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔
پاناما انکشاف
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ ملز کیس: نیب،ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی
ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔
جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، اسے بعد ازاں 28 جولائی کو سنا دیا گیا تھا جس کے مطابق نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔