پاکستان

ملتان میٹرو بس منصوبہ: کرپشن کی تحقیقات کیلئے ایس ای سی پی پردباؤ

چینی کمپنی کو دبئی سے1 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی رقم کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی رقوم موصول ہوئیں، رکن قائمہ کمیٹی برائے خزانہ

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے قائم مقام چیئرمین ظفر عبداللہ نے انکشاف کیا کہ ان کی اور ادارے کے کسی کمشنر کی ملتان میٹرو بس منصوبے میں مبینہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے دستاویزات تک رسائی نہیں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایس ای سی پی کے قائم مقام چیئرمین ظفر عبداللہ نے کہا کہ ملتان میٹرو بس منصوبے میں ٹھیکیداروں کی جانب سے مبینہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کی معلومات ہی ادارے کے اجلاس کے دوران سامنے آئیں۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ چینی کمپنی کے بینک اکاؤنٹس میں مشکوک ترسیلات پر چینی حکام کی جانب سے انکوائری کے آغاز کے بعد اٹھایا گیا۔

جس کے باعث چائنا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن (سی ایس آر سی) نے 2016 میں چینی کمپنی یابائیتے کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جس کے بعد کمپنی نے چینی حکام کو بتایا کہ انہیں ملتان میٹرو بس منصوبے پر کام کے آغاز کے بعد رقم موصول ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: 28ارب 88کروڑ کی لاگت، ملتان میٹرو بس کا افتتاح

اس معلومات کی بنیاد پر سی ایس آر سی کا وفد گذشتہ برس دسمبر میں پاکستان پہنچا جس نے باقائدہ طور پر معاملے کی تحقیقات میں سی پی ای سی سے مدد طلب کی۔

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جب سی ایس آر سی کے ساتھ بات چیت جاری تھی اس وقت ایس ایس سی پی نے یہ کیس وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپرد کردیا تھا جبکہ اس کیس میں جعلی خطوط، جو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دو سینیٹر سے منسوب تھے، ایف آئی اے کے حوالے کر دیے گئے تھے۔

چینی کمپنی نے چینی حکام کو بتایا کہ انہیں اپنی رقم موصول ہوئی جو ملتان میٹرو منصوبے کے ذیلی ٹھیکیدار کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اجلاس میں موجود ایس ای سی پی حکام سے سوال کیا کہ چینی کمپنی کی جانب سے دیے گئے دستاویزات سے وزریر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی کمپنی کیپٹل انجینیئرنگ کے کسی عہدیدار کا بیان ملتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: چینی سفیر کی ملتان میٹرو بس پروجیکٹ میں کرپشن کی تردید

ایس ای سی پی حکام نے جواب میں بتایا کہ کیپٹل انجینیئرنگ کا ریکارڈ نہیں ملا اور ایس ای سی پی بھی اس کمپنی کا پتہ تلاش نہیں کر سکا اور نہ ہی ان دستاویزات میں کمپنی کے سی ای او کی تفصیلات اور قومی شناختی کارڈ کی کاپی موجود ہے۔

قائمہ کمیٹی نے اس گمشدہ رابطے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کیپٹل انجینیئرنگ کے سی ای او نے چینی حکام سے ملاقات کیں کیونکہ چینی حکام کی جانب سے فراہم کیے گئے دستاویزات میں کیپٹل انجینیئرنگ کے سی ای او کا بیان موجود ہے۔

ایس ای سی پی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف آئی اے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جو سی ایس آر سی کی حتمی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے دیگر ممبران نے بھی ایس ای سی پی پر جان بوجھ کر کارروائی کو ملتوی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں مزید انکوائری کی جائے۔

مزید پڑھیں: ملتان میٹرو: پنجاب حکومت ’کرپشن‘ تحقیقات کا حصہ بننے کیلئے 'تیار‘

تاہم سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ ایس ای سی پی کی جانب سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے بعد مزید کارروائی کی ضرورت نہیں اور یہ معاملہ اب پنجاب حکومت دیکھ رہی ہے۔

اجلاس کے بعد قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک رکن نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ صرف دبئی سے چینی کمپنی کو 1 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی رقم بھیجی گئی جبکہ انہیں ملائیشیا، امریکا اور ہانگ کونگ سے بھی رقوم موصول ہوئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین ظفر حجازی کی گرفتاری کے بعد منظر عام پر آیا۔

ایس ای سی پی حکام نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چینی حکام کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات میں صداقت موجود نہیں اور کمیشن ابھی ایف آئی اے حکام انکوائری کے اختتام کا انتظار کر رہا ہے۔


یہ خبر 14 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی