بے وطن روہنگیا آخر کدھر جائیں؟
سنگلاخ پہاڑوں، وحشی جنگلوں، درندہ صفت انسانوں اور بارودی سرنگوں سے بچتا بچاتا طیب بنگلادیش کی سرحد پر پہنچ گیا ہے لیکن آگ اور خون کے اِس راستے میں اب وہ تنہا ہے۔ ننہے طیب کو اُس کی ماں نے چند روز قبل نور محمد اور اُس کی بیوی کے حوالے کیا تھا۔ کسی طرح دونوں میاں بیوی طیب کو اپنے ساتھ بنگلادیش تو لے آئے ہیں مگر اب وہ اُس کا مزید خیال نہیں رکھ سکتے۔
بنگلادیش کے ایک مقامی اخبار کے مطابق طیب کا باپ اُس کی پیدائش سے چند ماہ قبل 2012ء میں روہنگیا کش فسادات میں مارا گیا تھا اور پانچ سال بعد حالیہ فوجی کارروائیوں میں اُس کی ماں بھی گاؤں پر اچانک حملے کے دوران لگائی گئی آگ میں جھلس گئی تھی۔ وہ دو روز زخموں سے کراہتی رہی، مگر علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گئی۔ یہ صرف ایک کہانی ہے! کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کیمپ پہنچنے والے ہر شخص کے پاس اپنی ایک کرب ناک داستان موجود ہے، جسے سن کر شاید ہی کوئی ہو جس کی آنکھیں بھر نہ آئیں۔
21 اگست کے واقعے کے بعد روہنگیا کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں سج چکا ہے۔ تمام آزاد ذرائع کے مطابق فوجی چوکی پر حملے میں ملوث عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے نام پر شروع ہونے والے آپریشن کا نشانہ عام لوگ ہیں۔ گزشتہ 20 دنوں میں تقریباً 3 لاکھ افراد ہجرت کر کے بنگلادیش پہنچ چکے ہیں۔ جسے اقوام متحدہ حالیہ تاریخ میں مختصر ترین وقت میں سب سے بڑی ہجرت قرار دے رہی ہے۔
پڑھیے: روہنگیا بحران
الجزیرہ کے مطابق میانمار کی مغربی ریاست رخائن میں صرف شمالی علاقے ایسے تھے، جہاں روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں باقی بچے تھے لیکن حالیہ فوجی کارروائیوں کے بعد اب وہ بھی نہیں رہے۔ ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی میڈیا، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے چند صحافیوں کو سرکاری نگرانی میں مخصوص علاقوں کے دورے تو ضرور کروائے گئے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود سچائی کو چھپایا نہیں جاسکا۔ اِس حوالے سے بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے اپنے دورے کی جو رپورٹ شائع کی ہے، وہ لرزہ خیز ہے۔
رپورٹ کے مطابق میانمار کی حکومت نے باقاعدہ منصوبے کے تحت اِن صحافیوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔ جوناتھن ہیڈ نے انکشاف کیا کہ جن لوگوں کو مسلمان قرار دے کر خود ہی اپنے گاؤں کو آگ لگاتا دکھایا گیا تھا، وہی لوگ ایک دوسرے کیمپ میں ہندو روہنگیا کے روپ میں مسلمان روہنگیا کے خلاف بات کر رہے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ڈرامے کی طرح تھا۔
اقوام متحدہ کہتی ہے کہ روہنگیا دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں سے ایک ہیں لیکن اِس کے برعکس میانمار کی حکومت ایسی کسی اقلیت کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کرتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں لاکھوں بنگالیوں نے برما کا رخ کیا جن کی اکثریت غیر قانونی طور پر مغربی ریاست رخائن میں آباد ہو گئی تھی۔ فوجی حکومت ہو یا شہری آزادی کی جدوجہد کے لیے معروف نوبل ایوارڈ یافتہ آنگ سان سوچی دونوں ہی یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ مبینہ بنگالیوں کو واپس اپنے ملک جانا چاہیے۔
امریکا میں مقیم میانمار کے دانشور ڈاکڑ شو لو ماونگ کی کتاب "رخائن اسٹیٹ وائلنس" اِس مسئلے کی اہم وجہ کو سمجھنے میں انتہائی مدد گار ہے۔ ڈاکٹر شو لو کے مطابق رخائن ریاست کی بدھ نسل "رکھائین"، روہنگیا مسلمانوں کی ریاست میں موجودگی کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ کہیں مسلمان دوبارہ رخائن ریاست نہ بنالیں، حالانکہ برسرزمین ایسی کوئی تحریک اپنا وجود نہیں رکھتی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اِس نام نہاد خطرے کو بُدھ راحبوں اور برما کی فوج نے پروپیگنڈہ کر کے عام لوگوں کے ازہان پر سوار کر دیا ہے۔
پڑھیے: 50 سال کی ناانصافی، روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا آغاز 1948 میں برما کی آزادی کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ ابتداء میں اُنہیں انگریزوں کی نشانی قرار دے کر دارالحکومت رنگون سے نکالا گیا اور پھر بتدریج اُن کے شہری حقوق چھینے جاتے رہے۔ 1962 میں فوجی بغاوت کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی اور اُنہیں ملک کی تسلیم شدہ 135 نسلی گروہوں سے بھی خارج دیا گیا۔ مزید ظلم یہ کہ 80 کی دہائی میں اُن کی شہریت بھی ختم کردی گئی۔ یوں ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا جو بدستور جاری ہے۔
چند ہفتوں قبل جاری ہونے والی الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب صرف 11 لاکھ روہنگیا رخائن میں باقی رہ گئے ہیں جبکہ 5 لاکھ بنگلادیش، ساڑھے تین لاکھ پاکستان، دو لاکھ سعودی عرب اور تقریباً ایک لاکھ دوسرے قریبی ملکوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
90 فیصد سے زائد روہنگیا لوگوں کے پاس دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور یوں وہ دنیا کی سب سے بڑی "اسٹیٹ لیس نسلی اکائی" قرار دیے جاتے ہیں۔ بقیہ جو 11 لاکھ افراد رخائن میں آباد ہیں، اُن میں ایک تہائی سے زائد لوگ گزشتہ 20 دنوں میں بنگلادیش ہجرت کرچکے ہیں جبکہ نصف سے زائد تعداد رخائن کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے، جہاں نہ اُن کے پاس کوئی روزگار ہے اور نہ اُن کے بچوں کے لیے اسکول۔ یہی نہیں بلکہ اُنہیں مسجد اور مدرسہ بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
میانمار کی حکومت گو گزشتہ نصف صدی سے مختلف اوچھے ہتھ کنڈوں کے ذریعے روہنگیا مسلمانوں سے جان چھڑانے اور انہیں اپنے ہی ملک میں غریب الوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتی آئی ہے مگر گزشتہ ایک دہائی میں اِن کوششوں میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ اِس عرصے میں شدت پسند نظریات کو بڑھاوا دینے میں بدھ مذہب کے کچھ راہب نمایاں رہے ہیں جن میں ایشین ویراتھ سب سے مشہور ہیں۔
ایشین ویراتھ بدھوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ میانمار کی حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبے کے باوجود کبھی ایشین ویراتھ سمیت کسی بدھ راحب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہاں یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ 2012 کے روہنگیا کش فسادات کا بہانہ ایک مسلمان نوجوان کے ہاتھوں مبینہ طور پر بدھ رکھائین خاتون کے ریپ کو بنایا گیا تھا جبکہ اِس بار رخائن روہنگیا سیلویشن آرمی (ارسا) کی فوجی چوکی پر حملے کو وجہ بنایا گیا ہے۔
ایک پسی ہوئی اقلیت کے کسی ایک شخص کے مبینہ فعل یا کسی ایک چھوٹے سے گروہ کی فوجی چوکی پر حملے کے خلاف گاؤں کے گاؤں نذرِ آتش کرنا، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا، بوڑھوں اور ضعیفوں پر حملے کرنا اور نوجوانوں کو چُن چُن کر قتل کرنا، کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن جب میانمار میں عام لوگوں سے اُن مظالم سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو اُن کا جواب ایک ہی ہوتا ہے، ہماری فوج بنگالی دہشت گردوں کو نہ مارے، تو کیا کرے؟
ڈاکٹر عظیم ابراہیم ایک نامور امریکی محقق اور مورخ ہیں۔ اُن کی کتاب "انسائڈ میانمار ہائیڈین جینوسائڈ" پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عظیم ابراہیم کے مطابق یہ بات انتہائی لغو ہے کہ روہنگیا دراصل بنگالی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ روہنگیا اِس خطے میں 1784 میں انگریزوں کی آمد سے سیکڑوں سال پہلے بھی موجود تھے۔ انہوں نے معتبر تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت کی ہے کہ مغربی میانمار کا یہ خطہ جس کا پرانا نام ماضی میں ارکان تھا، چاٹ گام سے لے کر جنوب مغربی ساحلوں تک پھیلا ہوا تھا اور یہاں کے روہنگیا لوگ لسانی اور ثقافتی اعتبار سے بنگالیوں سے یکسر مختلف تھے۔
ارکان میں اسلام 11 ویں صدی میں عرب تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ کئی صدیوں تک یہ خطہ مختلف مسلم سلطنتوں کا حصہ رہا جبکہ مغلوں سے پہلے یہاں روہنگیا مسلمانوں کی مقامی ارکان ریاست موجود تھی۔ انہوں نے رخائن میں آباد بدھ نسل رکھائین پر بھی تحقیق کی اور ثابت کیا کہ یہ لوگ روہنگیا کے بہت بعد میں اِس علاقے میں آباد ہوئے ہیں۔ یہ کتاب روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے کئی پوشیدہ حقائق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے خاص طور پر یہ معاملہ کہ کس طرح اکثریتی روہینگیا کو پہلے اقلیت اور پھر غیر ملکیوں میں تبدیل کیا گیا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی زیرِ قیادت کمیشن اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ رپورٹ بھی میانمار کی حکومت کے مؤقف کے برعکس، تلخیوں اور زیادتیوں سے بھری حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن عالمی میڈیا کی خبروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹیں ایک طرف اور عالمی طاقتوں کے مفادات دوسری طرف۔
چین اور روس میانمار کے دیرینہ اتحادی ہیں اور دونوں ممالک سلامتی کونسل میں میانمار کے خلاف ہر کارروائی کو ہمیشہ ویٹو کرتے آئے ہیں۔ چین "سی پیک" کی طرز پر ایک روٹ میانمار میں بھی بنارہا ہے جو اُس کے لیے بحرہ ہند میں پہنچنے کے لیے مختصر ترین روٹ ہے۔
اِس روٹ کے راستے میں کسی روہنگیا مسلمانوں کا بے ضرر وجود اُسے بھی برداشت نہیں۔ امریکا اور مغربی دنیا کو اِس خطے میں دلچسپی نہیں، باقی رہی مسلم دنیا، تو اُس کا ضمیر مفادات کی قید میں ہے۔ سو بنگلادیش کی سرحد پر کھجور کے پتوں سے بنے خیمے میں بیٹھے ننہے طیب کے نصیب میں ابھی مزید آنسو ہیں، جنہیں پونچھنے والا، فی الوقت کوئی نہیں۔
کاشف نصیر انٹرنیٹ پر اردو زبان کی ترویج کے لیے سرگرم ادارے اردو سورس سے وابستہ ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے بلاگ لکھ رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔