نقطہ نظر

آئیے سی پیک کے حوالے سے کچھ چینیوں کی بھی سنیں

ہمارے چینی شراکت داروں کو جن چند اصل مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے ہمیں تحقیقات کرنی ہوگی اور اقدامات کرنے ہوں گے۔
لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک ہیں۔

سی پیک کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں کافی بحث و مباحثے اور تجزیات کیے گئے ہیں، اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کا خیال رکھنا ہے اور ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کو یقینی بھی تو بنانا ہے۔

ان مباحثوں اور مضامین نے چین کے اندر بھی کافی دلچسپی پیدا کی۔ اس مضمون میں چینی دانشوروں، تدریس سے وابستہ شخصیات، سی پیک سے وابستہ کمپنیوں، پاکستان کے ریٹائرڈ افسران اور پاکستان کے دیگر دوستوں کے خیالات کا تجزیہ پییش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ماضی میں چین کے ساتھ میرا تعلق خطے میں ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ کے طور پر رہا ہے اور تب سے اب تک تقریباً ہر سال چین جانا بھی ہوتا ہے، یوں مجھے ان کے خیالات کو جاننے کا موقع ملا۔

اس سال بھی مجھے سی پیک پر دو بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جن میں سے ایک مارچ میں بیجنگ میں ہوئی اور دوسری شنگھائی میں اگست کے ماہ میں ہوئی، وہاں مجھے معاشرے کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے چینی افراد کی آراء سننے کو ملیں۔

چینیوں میں پاکستان کے لیے جو خیر خواہی کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کا شاید ہی کوئی ثانی ہو اور اسی لیے ہمیں ان کے خدشات اور تجاویز پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ یہاں پیش کردہ خلاصہ ان کے مختلف خیالات کا ایک مخلوط خاکہ ہے۔

2013 میں اعلان کردہ اپنے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین پوری دنیا میں 6 مختلف راہداریاں بنانے لیے 60 ملکوں میں 10 کھرب کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ دیگر ملک تو اس منصوبے کو لے کر کافی پرجوش ہیں مگر پاکستان کے چند حلقوں کی جانب سے میڈیا پر آنے والے شکوک و شبہات پر مبنی منفی رد عمل کو دیکھ کر چند چینی دوست کافی حیران و پریشان ہیں۔

ان کے لیے یہ بات باعثِ حیرت اس لیے ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تعلقات کا ایک طویل اور بلا تعطل سلسلہ قائم رہا ہے جو ان دو ملکوں کی سیاسی قیادتوں کے بدلنے سے بھی کبھی متاثر نہیں ہوا۔ سی پیک اپنی نوعیت کا پہلا ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت پاکستان میں بڑے بڑے انفرا اسٹرکچرل منصوبوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی تعاون اونچی سطح تک بڑھایا جائے گا۔

اگرچہ انہیں اس منصوبے کی مخالف چند بیرونی قوتوں کا تو اندازہ ہے لیکن چینی تجزیہ کار اور کانفرنس میں شریک چینی حقائق کی پاکستانیوں کی طرف سے کی جانے والی غلط بیانی پر فکرمند دکھائی دیے۔ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ کس مقصد کے تحت پاکستانی عوام کے ذہنوں میں سی پیک کے بارے میں خدشات اور شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔

چینیوں کے مقاصد کو جس طرح بدنام کیا جا رہا ہے کہ کبھی اس منصوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے مشابہہ کیا جاتا ہے یا کبھی پاکستان کے چین کا سیٹلائٹ ملک بننے کی بات کی جاتی ہے، وہ کافی حوصلہ شکن ہے۔ سی پیک کے بیرونی مخالفین ایسی رپورٹس کو چن کر اکٹھا کرتے ہیں اور سی پیک منصوبوں سے پاکستان کو لاحق 'رسک’ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اس پلندے کو دور دور تک پھیلا دیا جاتا ہے۔

چینیوں کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز، ایک طویل عرصے سے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے پالیسی کا حصہ رہی ہیں۔ جب ملک سنگین توانائی بحران کا سامنا کر رہا تھا تب اور کوئی ملک پاکستان کی مدد کرنے اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ اب جبکہ چین اسی پالیسی کے تحت 35 ارب ڈالرز یا سی پیک کے لیے مختص کردہ مجموعی رقم کے 70 فیصد حصے کی سرمایہ کاری کے ساتھ آگے بڑھا ہے تو اس پر پھر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اگر اس منصوبے کے تحت چینیوں کے فائدے کے لیے پاکستان کے قدرتی وسائل نکالے جاتے ہیں تو تنقید درست ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس، اس سرمایہ کاری کے فوائد خصوصی طور پر پاکستان کی صنعتوں کو حاصل ہوں گے اور لوگوں کو لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارہ ملے گا جبکہ ملکی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 2 فیصد کا اضافہ ہوگا۔

چینی حکومت نے جن چینی سرکاری کمپنیوں کو ان کی صلاحیتوں اور تجربے کی بنیاد پر سی پیک میں شامل کیا ہے، وہ سرکاری بینکوں سے آسان اقساط اور رعایتی شرح سود کے ساتھ فراہم کردہ قرضے کی مدد سے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ کئی منصوبوں پر تو چینی اور پاکستانی کمپنیاں مشترکہ طور پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان اور چینی کمپنیوں کی مشترکہ صنعتیں سی پیک کے تحت بننے والے گوادر فری زون اور نو صنعتی زونز میں منتقل کرنے سے برآمدات میں اضافہ ہوگا اور یوں زر مبادلہ میں قرض کی ادائیگی اور منافعوں کی بیرون ملک منتقلی ممکن ہو پائے گی۔

چند کے خیال میں، منفی احساسات ان منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی ذاتی سیکیورٹی کے لیے خدانخواستہ خراب حالات پیدا کر سکتے ہیں، خاص طور پر وہ چینی باشندے جو بلوچستان کے حساس علاقوں میں موجود ہیں۔ پاکستانی ریاست اور حکومت سے ناخوش چند عناصر جو ممکنہ طور پر سی پیک مخالف بیرونی قوتوں کی ایما پر کام کرتے ہیں، انہوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں اب چینیوں کے قتل اور اغواکاری کے واقعات بھی رونما ہونے لگے حالانکہ اس سے قبل بالکل بھی ایسی صورتحال نہیں تھی۔ پاک فوج کی جانب سے چینیوں کے تحفظ کے لیے ایک نیا ڈویژن قائم کرنے پر ہمارے باہمی دوست احسان مند تو نظر آئے لیکن سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے چند غیر محفوظ جگہوں کی جانب منتقلی کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سی پیک منصوبے کے مینیجرز کے لیے جو دوسری پریشانی کی باعث تھی وہ ہے پاکستانی حکومت میں شامل بیوروکریسی کے سرخ فیتے اور بوجھل فیصلہ سازی۔ کلیئرینس اور منظوری کے مرحلے میں کئی ادارے شامل ہیں، ہر ادارہ اپنا وقت لیتا ہے۔ انہی تاخیروں سے ان کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور منصوبے کی سرگرمیوں کے شیڈیول اور ٹائم ٹیبل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، بجلی کے نرخوں کو ایک سے زائد سالوں کے لیے مناسب، قابلِ پیش گوئی، مستقل ہونا چاہیے اور بار بار بدلنے کی شرط نہ رکھی جائے۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ حکومت میں ایک فوکل پوائنٹ قائم کیا جائے اور اسے تمام منظوریوں اور فیصلوں کا اختیار کا دیا جائے۔

اس کے بعد چینی کمپنیوں کی شکایات کی تلافی کے لیے اعلیٰ سطحی مشترکہ تعاون کمیٹی کی ضرورت کا نکتہ اٹھایا گیا۔ موجودہ مشترکہ ورکنگ گروپس دونوں ملکوں کی حکومتی سطح پر کام کرتے ہیں لیکن چینی کمپنیوں یا مشترکہ منصوبوں میں ان کے پاکستانی پارٹنرز سے رابطے کے لیے کوئی بھی پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہے۔ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مسلسل وفاقی و صوبائی و مقامی سطح کا حکومتی تعاون نہایت ضروری ہے۔ زمین کے حصول کا کام صوبائی مقامی حکومت کے ماتحت ہے اور یہ مرحلہ کافی وقت لیتا ہے۔

جب ان سے نجی شعبے کی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو چینی ایگزیکٹیوز نے ہمیں بتایا کہ کم قابلیت اور تجربے کی حامل پاکستانی کمپنیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ اگر وہ مقامی کمپنیوں کے ساتھ اپنے معاہدے کے حصے کے طور پر پاکستانی مینیجرز، قابل کام کرنے والے، آلات چلانے والے اور لیبر بھرتی کرتے ہیں تو بھی ان کی اپنی پیداواری لاگت کم ہو گی۔

یہ خیالات شاید درست ہوں یا غلط لیکن ہمیں ہمارے چینی شراکت داروں کو جن چند اصل مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے ہمیں تحقیقات کرنی ہوگی اور اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ مضمون 12 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عشرت حسین

لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔