پاکستان میں معذوروں کو ہمدردی نہیں خدمت گاروں کی ضرورت ہے
'ہیراٹا سان' کا تعلق جاپان سے ہے۔ وہ سول انجینئر تھے۔ ایک روڈ حادثے میں اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا اور گردن سے نیچے تمام جسم مفلوج ہو گیا۔ یہاں تک کہ اُن کا اپنے بول و براز پر بھی کنٹرول ختم ہو گیا۔
اگر ہیراٹا سان کا تعلق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے ہوتا تو وہ بقیہ زندگی محتاجی اور کسمپرسی کے ساتھ کمرے میں بند بستر پر لیٹے تنہا گزار دیتے اور گھر والے دن رات ان کی موت کی دعا کر رہے ہوتے۔
خوش قسمتی سے ان کا تعلق جاپان سے تھا۔ جہاں معذور افراد کے لیے خدمت گار کی فراہمی کا نظام (Attendent Service) مربوط انداز میں کام کر رہا ہے اور اب وہ شدید معذوری کے باوجود جاپان میں معذوریں کے حوالے سے ایک تحریک کے اہم کارکن ہے اور دیگر معذور افراد کو آزادانہ طرزِ زندگی گزارنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکا، برطانیہ ، کینیڈا اور جاپان وغیرہ میں خود مختار اور نجی تنظیمیں شدید معذور افراد کے گھریلو اور ذاتی نوعیت کے کام سر انجام دینے کے لیے خدمت گار فراہم کرتی ہیں، جبکہ ان سروسز کی ادائیگی حکومتِ وقت کرتی ہے۔
پڑھیے: معذور افراد سہولیات چاہتے ہیں، خیرات نہیں
اس سروس کی بدولت معذور افراد گھر والوں پر بوجھ بنے بغیر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان ممالک میں بہترین حکومتی پالیسوں اور معاشرے میں معذوری کی آگاہی کی بدولت شدید معذور افراد تعلیم اور روزگار کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
جاپان میں اٹینڈنٹ سروس کے تین اہم جزو ہیں، پہلا، صارف یا معذور فرد، جو اپنی ذہنی و جسمانی معذوری کی بنا پر ذاتی و گھریلو کام کاج خود انجام نہیں دے سکتے۔
جاپانی معذور فرد کی خاصیت یہ ہے کہ وہ معذوری کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہوئے اسے تسلیم کرتے ہیں اور معذوری کو اپنے لیے باعثِ شناخت سمجھتے ہیں۔ وہ خدمت گار کے جسم کو اپنا جسم تصور کرتے ہوئے اُس سے تمام کام اپنی خواہش اور آرزو کے مطابق کرواتے ہیں۔
دوسرا، خدمت گار، جو غیر معذور افراد ہوتے ہیں۔ انہیں معذوری کی مکمل آگاہی کے ساتھ ساتھ معذور فرد کی مدد کس طرح کرنی ہے، اس حوالے سے مکمل طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
تیسرا، معذور فرد اور خدمت گار کے درمیان رابطہ کار یا کو آرڈینیٹر، جس کا تعلق خود مختار یا نجی ادارے سے ہوتا ہے۔ جاپان میں انڈیپینڈنٹ لیونگ سینٹرز، اولڈ ایج ہاؤسز اور پرسنل کیئر انسٹی ٹیوٹ جیسے ادارے خدمت گار کی سروس مہیا کرتے ہیں۔
پڑھیے: حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان
سرکاری ہسپتال میں موجود میڈیکل ٹیم معذور فرد کا معائنہ کرنے کے بعد اُس کے لیے اٹینڈنٹ سروس کی سفارش کرتی ہے۔ خدمت گار کا معاوضہ مقامی حکومت ادا کرتی ہے، خدمت گار معذور فرد کا نوکر نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ معاونت کا کام سمجھ کر سر انجام دیتا ہے، کیونکہ حکومت اس کام کے لیے اسے باقاعدہ تنخواہ دیتی ہے۔
جاپان کی معیشت کو خدمت گار کی فراہمی کے نظام سے دوہرے فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ اولاً معذور فرد خاندان اور معاشرہ پر بوجھ بننے کے بجائے معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرا، بیروزگار افراد خدمت گار کی فراہمی کو بطور پیشہ اپنا لیتے ہیں۔
امریکا میں معذور افراد کے لیے خود مختاری پر مبنی طرزِ زندگی کی تحریک ایڈ روبارٹس کے زیر نگرانی 60 کی دہائی میں شروع ہوئی، ایڈ روبارٹس خود بھی پولیو کی وجہ سے معذور تھے۔ جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کی وجہ سے معذوری کا شکار ہونے والے جان ڈارٹ نے بھی اس تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکا میں بار کلے کے مقام پر 1967 میں پہلا انڈیپنڈنٹ لیونگ سینٹر قائم ہوا تھا۔ جبکہ جاپان میں شوجی ناکا نیشی نے 80 کی دہائی میں معذور افراد کے لیے آزادانہ طرزِ زندگی کے نظام کے لیے مہم چلائی، اور 1987 میں ٹوکیو میں جاپان کا پہلا انڈیپینڈنٹ لیونگ سینٹر قائم ہوا۔
ترقی یافتہ ممالک میں خدمت گار کی فراہمی کا تصور 20 ویں صدی کے اواخر سے دیکھنے کو ملتا ہے لیکن 14 سو سال قبل انسانیت کو معراج پر پہنچانے والے مذہب یعنی دینِ اسلام نے سب سے پہلے معذور افراد کے لیے خدمت گار کی فراہمی کا عملی تصور پیش کیا۔
پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے
یہ سنہری دور حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کا تھا، جب دستر خوان پر بھی خلیفہ وقت اور رعایا اکھٹے براجمان ہوتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ جس پر آپؓ نے اُس شخص سے استفسار کیا کہ وہ کیوں بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ اُس شخص نے حضرت عمر فاروق ؓ کو بتایا کہ چونکہ اُس کا دایاں بازو ایک غزوہ میں کٹ چکا ہے، اس لیے وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے پر مجبور ہے، حضرت عمر فاروق ؓ نے فوراً اُس شخص کے لیے ایک خدمت گار فراہم کیا اور اُس خدمت گار کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں معذوری کو صرف قابلِ ہمدردی سمجھا جاتا ہے۔ معذور افراد کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے حکومت اور معاشرہ اجتماعی کوششیں کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
معذور افراد بھی وطن عزیز پاکستان کے معزز شہریوں کی طرح اپنے حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں۔ انہیں معاشرہ کا مفید اور فعال رکن بننے کے لیے تعلیم ، صحت، قابل رسائی ٹرانسپورٹ ، قابل رسائی عمارات اور روزگار چاہیے۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خدمت گار کی فراہمی ملکی نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ جاپان کی طرح ملکی معیشت کو بھی اس سے دوہرے فوائد حاصل ہوں گے۔
پہلا، چونکہ عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 10% معذور افراد پر مشتمل ہے، تو اس آبادی کو متحرک اور گھر والوں پر انحصار کم کرنے کے لیے خدمت گار کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں ہر سال رمضان میں بینکوں سے اربوں روپے کی زکوۃ کٹتی ہے۔ اس مالی وسائل کو با آسانی معذور افراد کے لیے خدمت گار کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مخیر حضرات اور کاروباری ادارے بھی اس کارِ خیر میں بطورِ ہدیہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ پاکستان میں تقریباً 6 فیصد آبادی بیروز گار ہے۔ صحت مند اور غیر معذور افراد بطورِ خدمت گار اس پیشے کو اختیار کر سکتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان معذور افراد بھی معاشرے کے فعال رکن بن کر سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ دار بن سکتے ہیں۔
سائرہ ایوب لاہور کے ایک سرکاری کالج میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ معذوری کے حوالے سے افسانے اور مضامین لکھتی رہتی ہیں اور معذوروں کے مسائل اور ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہیں جن کی وجہ سے معذور حقیقتاً معذور بن جاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔