پاکستان

بینظیر قتل کیس: پولیس افسران نے اپنی سزا چیلنج کردی

سابق سی پی او سعود عزیز اورسابق ایس پی خرم شہزاد کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے17،17 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں 17، 17 سال قید کی سزا پانے والے دونوں پولیس افسران نے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اپنی سزا کے خلاف اپیلیں دائر کردیں۔

سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد نے اپنے وکلاء کے ذریعے دائر کی گئی اپیلوں میں موقف اختیار کیا کہ ان کی سزائیں معطل کرکے انھیں رہا کیا جائے۔

وکلاء نے پٹیشن میں موقف اپنایا کہ 'ان کے موکلان نے بینظیر بھٹو کے جلسہ گاہ کو سیکیورٹی فراہم کی تھی، لیکن جو سروسز مہیا کر رہا تھا اسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا'۔

پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ 'استغاثہ کے پاس ہمارے موکلوں کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت بھی موجود نہیں جبکہ گواہان کے بیانات بھی تضادات سے بھرپور ہیں'۔

مزید کہا گیا کہ 'قانون شہادت کے تحت فوجداری قوانین کی رو سے مقدمے کا ٹرائل نہیں کیا گیا جبکہ عدالتی فیصلے میں انکوائری رپورٹس کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا'۔

مزید پڑھیں: بینظیر قتل کیس کا فیصلہ،مشرف اشتہاری قرار، پولیس افسران گرفتار

پٹیشن کے مطابق راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیکیورٹی مہیا کرنے والے دونوں افسران کو 17، 17 سال قید کی سزا سنا دی جبکہ گرفتار 5 ملزمان کو مقدمے سے بری کرکے عجلت میں فیصلہ سنایا۔

وکلاء کا موقف ہے کہ دونوں پولیس افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا جبکہ بینظیر بھٹو کے قتل سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، مزید استدعا کی گئی کہ ان کے موکلان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر بھٹو کے قتل کا راز

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے 9 سال 8 ماہ بعد راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان نے گذشتہ ماہ 31 اگست کو کیس کا فیصلہ سنایا۔

فیصلے کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کردیا گیا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیداد قرق کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

جبکہ اس کیس میں گرفتار پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، حسنین گل، شیر زمان، رفاقت اور رشید کو بری کرنے کا حکم دے دیا تھا، تاہم پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی درخواست پر ان ملزمان کو مزید 1 ماہ کے لیے حراست میں رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ بری کیے جانے والے ان پانچوں ملزمان کا تعلق مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیرقتل کیس فیصلہ: پرویز مشرف کا مقدمے کا سامنا کرنے کا اعلان

گذشتہ ہفتے 2 ستمبر کو بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں اشتہاری قرار دیے گئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے عدالتی فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ان کے خلاف نہیں اور وہ صحت یابی کے بعد پاکستان آکر مقدمے کا سامنا کریں گے۔

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بینظیر قتل کیس میں انہیں سیاسی بنیادوں پر ملوث کیا گیا، 'قتل کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، نہ ہی بینظیر کے قتل سے میرا کوئی مفاد وابستہ تھا، میرے خلاف یہ مقدمہ مکمل بے بنیاد، جھوٹ اور خود ساختہ ہے جو محض سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا'۔