سپریم کورٹ کا نیب بلوچستان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ’کرپشن کا سہولت کار‘ قرار دیتے ہوئے نیب بلوچستان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق وزیر خوراک بلوچستان اسفند یار کاکڑ کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے پاناما لیکس پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے رکن اور ڈی جی نیب بلوچستان عرفان نعیم منگی کی سرزنش کرتے ہوئے ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں کئی اہم مقدمات تاخیر کا شکار ہیں،عرفان نعیم منگی کے خلاف انکوائری ہو رہی تھی، آج وہ ہیرو بن گئے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیوں نہ عرفان نعیم منگی کو کیس میں شریک ملزم بنایا جائے، نیب حکام خود بھی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، اگر ان کے خلاف مقدمات بنیں گے تو ہی بہتری آئے گی۔
جسٹس دوست محمد خان نے پاناما کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے باعث نعیم منگی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔
جسٹس فائز عیسی نے نیب کو ’کرپشن کا سہولت کار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا بھی چھوٹ جاتا ہے، نیب نے کرپشن مقدمات کو مذاق بنا رکھا ہے، تیس روز میں مکمل کرنے والے ٹرائل تیس ماہ میں بھی مکمل نہیں ہوتے، آج تک نیب نے تیس روز میں کوئی ٹرائل مکمل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ قوم کے پیسے سے تنخواہ لے کر قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، قوم کے 77 کروڑ 10 لاکھ روپے چوری ہوگئے اور نیب سو رہا ہے۔
عدالت نے 50، 50 لاکھ کے مچلکوں کے عوض اسفند یار کاکڑ کی ضمانت منظور کر لی۔
سابق وزیر خوراک بلوچستان اسفند یار کاکڑ کو رواں سال مارچ میں نیب نے حراست میں لیا تھا۔
اسفند یار کاکڑ پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور تبادلوں کا الزام تھا۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں اسفند یار کاکڑ کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد نیب حکام نے انہیں گرفتار کیا، جبکہ اسی کیس میں سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ بلوچستان ظاہر جمالدینی کو بھی حراست میں لیا گیا۔
نیب نے ان دونوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے قومی خزانے کو 2 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔
نیب نے اسفند یار کاکڑ کے خلاف کرپشن کے 3 ریفرنسز تین برس قبل دائر کیے تھے، جن میں پشین کے ایک اسٹور سے 100 کلو گرام گندم کے 2 لاکھ 56 ہزار بوریاں غائب ہونے کا الزام اسفند یار کاکڑ پر عائد کیا گیا تھا۔
اسفند یار کاکڑ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے کابینہ میں وزیر خوراک تھے۔
اسفند یار کاکڑ بلوچستان کے ضلع پشین سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔