یورپی مصوری میں زرد رنگ کی تاریخی اور معاشی اہمیت
یہ قرونِ وسطیٰ میں یورپی مصوری پر سلسلے کا تیسرا حصہ ہے۔ گزشتہ حصے یہاں پڑھیں۔
رنگ ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں، یہ رنگ نہ ہوں تو سوچیں ہر شے کتنی اداس اور غمگین دکھے گی۔ قدرت نے بھی ہر منظر کو رنگوں سے مزین کر رکھا ہے اور یہی رنگ ان مناظر کو دلکش بناتے ہیں۔ یہ رنگ انسانوں کے جذبات، ان کے احساسات اور ان کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں، مثال کے طور پر غصے کو سرخ رنگ اور گھبراہٹ اور خوف کو نیلے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ رنگ ہمارے معاشرتی رویوں کے بھی عکاس ہیں، جیسے سرخ اشتراکیت، سبز ماحولیات، کالا رنگ غم اور نقصان، اور گلابی سرطان کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
یہ رنگ ہماری زندگی میں اس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ ان کے نہ ہونے کا ہم تصور بھی نہیں کرتے، اور اسی زیادتی کی وجہ سے شاید ہمیں ان کی اہمیت کا ادراک نہیں۔ اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کسی رنگ ساز کو کیسری رنگ رنگنے کا کہا جائے اور وہ شوخ پیال رنگ کر دے، یہ معمولی فرق رنگ ساز سے بحث کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سلسلے کے گزشتہ دو حصوں میں نشاۃِ ثانیہ کے دو مصورین کے کام کا ذکر کیا گیا، اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس مضمون میں مصوری کے سب سے لازمی جزو یعنی رنگ، ان کے حصول کے تاریخی ذرائع اور مصوری و معاشرے میں ان کی عالمی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس حوالے سے اس مضمون کے لیے زرد (پیال) رنگ کا انتخاب کیا گیا ہے، یہ سرخ اور نیلے کی مانند بالغ افراد میں اتنا مقبول تو نہیں مگر ہماری روزمرہ کی زندگی میں اپنی شدت اور چمک کے باعث کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر زرد رنگ کو سڑک پر موجود احتیاطی نشانات میں دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں زرد رنگ کے معاشرتی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ دوسرا حصہ اس رنگ کے حصول کے تاریخی ذرائع اور ان کے استعمال پر مبنی ہے۔
حصہءِ اول: زرد رنگ کی معاشرتی اہمیت و کردار
معاشرتی اعتبار سے زرد رنگ ہمارے ہاں پنجاب میں بہار کی آمد کا پیغام دیتا ہے، زرد رنگ بسنت اور بیساکھی کے میلے سے بھی منسوب ہے۔ سورج کی روشنی کے حوالے سے زرد یا سنہری رنگ طاقت اور امارت کا پیغام دیتا ہے۔ صحافت کے تعلق سے زرد رنگ بے بنیاد خبریں، مبالغہ آرائی اور سنسنی پھیالنے والی خبروں سے منسلک ہے۔
بیماری کو لیں تو یہ رنگ زرد بخار اور یرقان جیسے امراض کو ظاہر کرتا ہے۔ مذہبی اعتبار سے زرد رنگ ہندو مت اور بدھ مت میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بدھ بھکشو اور ہندو پروہت زرد رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور ان کے مطابق یہ رنگ علم کی روشنی، من کے سکون اور خوشی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندو مصوری میں وشنو کو زرد رنگ میں دکھایا جاتا ہے، جو ان کے عالم و فاضل ہونے کی علامت ہے۔
بدھ بھکشوؤں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ پیال یا زرد رنگ اس لیے پہنتے ہیں کہ یہ رنگ دنیا کی آسائشیں چھوڑ دینے اور ان سے چمٹے نہ رہنے کو ظاہر کرتا ہے اور بدھ مت میں من کا سکون پانے کے لیے یہ لازمی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم اور نازی افواج کے حوالے سے اگر اس رنگ کا ذکر ہو تو اس دور میں جرمن حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے زرد ستارہ پہننا لازم قرار دیا گیا تھا۔ اس بنا پر شاید یہودیوں کے لیے یہ رنگ کچھ اچھے جذبات اجاگر نہیں کرتا۔ تاریخی لحاظ سے اس روایت کا آغاز عیسائی پوپ انوسنٹ سوم نے 12 ویں صدی میں کیا تھا، جب یہودی مرد و عورتوں کے لیے پہچان کی غرض سے اپنے لباس پر زرد نشان کنندہ کرنا لازم قرار دیا گیا۔
مصوری میں اس رنگ کا ذکر ہو تو وین گو شاید واحد وہ مصور ہیں جنہوں نے کثرت سے اس رنگ کا استعمال کیا کہ آج ان کے کام کو زرد رنگ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق وین گو کی مصوری میں زرد رنگ زندگی، اجالا اور خدا کے نور کو ظاہر کرتا ہے اس کے برعکس کچھ محققین کے مطابق اس کثرت سے زرد رنگ کا استعمال شاید اس وجہ سے تھا کہ وین گو رنگوں میں فرق نہیں کر پاتا تھا یا پھر شراب نوشی کی زیادتی کی وجہ سے اس کو ہر شے میں زرد رنگ دکھائی دیتا تھا۔ ٰ
قرون وسطیٰ اور ابتدائی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں مصوری میں زرد رنگ کو زیادہ تر سونے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یورپی فنِ مصوری کا مذہب سے گہرا تعلق رہا ہے، عیسائیت میں سات کبیرہ گناہوں کا تصور رائج تھا، اس تصور کو نشاۃِ ثانیہ کے ادوار میں کئی مصورین نے معاشرے کے مختلف کرداروں کی عکاسی کے لیے اپنے فن کا موضوع بنایا۔
مصوری میں ان گناہوں کو مخصوص رنگ سے ظاہر کرنے کی روایت یورپی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں خاصی مقبول تھی۔ اس روایت کے مطابق غرور اور لالچ کو سرخ رنگ سے، حسد کو زرد رنگ سے، ذخیرہ اندوزی اور شکم پرستی (Gluttony) کو سبز، سستی اور کاہلی کو سفید اور بخل و حرص کو کالے رنگ سے پیش کیا جاتا تھا۔