خطے میں موجود کئی گروہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں،ترجمان دفتر خارجہ
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھی جنوبی ایشیائی خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے لاحق خطرات پر گہری تشویش ہے۔
نفیس زکریانے برکس سربراہی اجلاس کے اعلامیہ کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ 'خطے میں موجود بہت سے دہشت گرد گروپ بشمول افغانستان جہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک جماعت الاحرار(جے یو اے) جیسی تنظیمیں موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ دار رہی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں افغانستان میں داعش، مشرقی ترکمستان اسلامک تحریک(ای ٹی آئی ایم) اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) جیسے گروپوں کی حکومتی عمل داری سے باہرمقامات میں موجودگی پر گہری تشویش ہے کیونکہ وہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں'۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو خطے میں انتہا پسند نظریات اور عدم برداشت میں اضافے پر بھی تشویش ہے جس سے سماجی درجہ بندی اور اقلیتوں کو منظم انداز میں ہدف بنانے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
وزیر دفاع نے برکس سربراہی اجلاس کے اعلامیے کو مسترد کردیا
قبل ازیں وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پہلے ہی کہہ چکے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں جبکہ 40 فیصد افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
واضح رہے کہ چین کے شہر شیامن میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں مبینہ طور پر پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپوں کو علاقائی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقا (جنوبی افریقا) پر مشتمل برکس گروپ کے سالانہ اجلاس میں افغانستان سے انتشار کے خاتمے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ 'ہمیں خطے کی سیکیورٹی صورت حال اور طالبان، داعش، القاعدہ اور اس سے منسلک گروپوں مشرقی ترکمانستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حزب التحریر کی کارروائیوں پر تشویش ہے'۔
مزید پڑھیں: برکس اجلاس:عسکریت پسندگروپ علاقائی سیکیورٹی کیلئے خطرہ قرار
اس سے قبل قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان میں غیر ضروری خطرے کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں، پاکستان کی تینوں افواج انتہائی مستعدی سے ملکی دفاع پر مامور ہیں اور ’پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے‘۔
وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا تھا کہ عوام غیر ضروری طور پر خوفزدہ نہ ہوں، عالمی برادری نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت کی گئی کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا، پاکستان نے بڑے بڑے کامیاب انسداد دہشت گردی آپریشنز کیے جو امریکا، عراق اور افغانستان میں نہ کیے جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر صورت میں اپنے وطن کا دفاع کریں گے جبکہ سیاسی قیادت موجودہ صورتحال میں جذباتی بیانات نہ دے، پاکستان کے اپنے اور امریکا کے اپنے مفادات ہیں تاہم دہشتگرد تنظیم داعش کے معاملے پر پاکستان اور امریکا ایک پیج پر ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں جبکہ افغانستان میں 407 میں سے صرف 60 اضلاع پر افغان فورسز کا کنٹرول ہے، اس سے اندازہ کرنا چاہیے کہ محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں افغانستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تین روز بعد وزیر خارجہ چار انتہائی اہم ممالک کے دورے پر روانہ ہوں گے، جن میں چین، روس، ترکی اور ایران شامل ہیں جبکہ چاروں ممالک کے دورے کے بعد وزیر خارجہ امریکا جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس چیئرمین کمیٹی شیخ روحیل اصغر کی صدارت میں ہوا، جس میں وزیر دفاع خرم دستگیر سمیت کمیٹی کے دیگر اراکین نے شرکت کی، اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کیا۔
چئیرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ 'امریکی صدر نے ہمارے مسائل کو نظر انداز کیا اور الزامات لگائے، اربوں ڈالرز امداد کی بات ٹرمپ کی لاعلمی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحادی سپورٹ فنڈ کے تحت دی جانے والی امریکی امداد پہلے ہی بند کردی گئی تھی، پاکستان مخالف طاقتیں ہمیں غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں تاہم پاکستان کی سالمیت کے لیے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور خطے کی نئی پالیسی دیتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا جس کو پاکستان کی جانب سے رد کردیا گیا تھا۔
خطاب کے دوران امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے‘۔
دوسری جانب جنوبی ایشیاء میں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکا افغانستان میں استحکام کے لیے بھارتی کردار کو سراہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے‘۔
'ہر معاملہ فوج پر کیوں ڈالا جاتا ہے؟'
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں قومی سینٹر برائے انسداد شدت پسندی بل 2017 پر بھی غور ہوا، اس موقع پر چیئرمین روحیل اصغر نے کہا کہ 'میری خواہش ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کمیٹی سر کریک کا دورہ کرے اور آئندہ ماہ سندھ میں موجود ایئربیس کا بھی دورہ کریں گے'۔
سردار شوکت حیات نے کہا کہ 'انسداد شدت پسندی کا سینٹر بنانے کا کام وزارت دفاع کے بجائے وزارت داخلہ کا ہے، ہم ہر مسئلے کا حل فوج کے پاس کیوں تلاش کرتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'سیلاب، طوفان، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر کام میں فوج کو ہی بلا لیا جاتا ہے'، جس پر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ 'ہر معاملہ فوج پر ڈالنے کا مطلب ہے کہ باقی اداروں پر ہمارا اعتماد نہیں، ہر معاملے میں فوج کے شامل ہونے پر ہمیں اعتراض ہوتا ہے، بلاتے بھی ہم خود ہیں'۔
چئیرمین دفاعی کمیٹی نے کہا کہ 'ملک کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی فوج کا کام ہے اور فوج ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی دے رہی ہے'۔