دنیا

آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں پر جبروتشدد کی مذمت کریں: ملالہ

میانمار کے شمال مغربی علاقے میں ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں میں 4 سو روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

پاکستانی نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور جبراً نقل مکانی کی مذمت کرتے ہوئے جبروتشدد کے اس سلسلے کو ختم کیے جانے کا مطالبہ کردیا۔

خیال رہے کہ میانمار کے شمال مغربی علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں میں 4 سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

سماجی روابط کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ وہ ’اب بھی منتظر ہیں‘ کہ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی ساتھی اور جمہوریت نواز لیڈر آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ’شرمناک برتاؤ‘ کی مذمت کریں۔

دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’دنیا اور روہنگیا مسلمان اس بات کے منتظر ہیں کہ آنگ سان سو چی ان مظالم کی مذمت کریں‘۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، جبراً نقل مکانی پر پاکستان کو تشویش

ملالہ نے اپنی ٹوئٹ میں سوال کیا کہ ’اگر میانمار جہاں روہنگیا مسلمان کئی نسلوں سے آباد ہیں، ان کا گھر نہیں تو ان کا گھر کہاں ہے؟‘

انہوں نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بنگلادیش کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جان بچا کر بھاگ نکلنے والے روہنگیا افراد کو پناہ دینے پر بھی زور دیا۔

دوسری جانب قومی رہنما آنگ سان سو چی کے لیے میانمار کے 11 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا تشدد ایک بڑا چیلنج ہے جس کی مذمت نہ کرنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جمہوریت کے لیے اپنی طویل ترین کوششوں کی وجہ سے دنیا میں پہچانی جانے والی سو چی نے 1991 میں نوبیل امن انعام حاصل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: میانمار: ایک ہفتے میں ہلاک روہنگیا افراد کی تعداد 400 سے زائد

اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق میانمار کی ایک ریاست میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 38 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔

اس حوالے سے میانمار کی فوج کا موقف ہے کہ وہ 'دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں' کے خلاف کارروائی کررہی ہے کیونکہ عوام کا تحفظ ان کا فرض ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے ارکان کے قریب کچھ چوکیوں پر حملے کیے گئے تھے جس میں اہلکاروں سمیت 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، فوج اس مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کو حل قرار دے رہی ہے جبکہ کئی حلقے اس مسلح تحریک کو متواتر حق تلفی اور ناانصافی کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔