خواجہ اظہار الحسن پر حملے کا ماسٹر مائنڈ عبدالکریم سروش صدیقی کے جامعہ کراچی کے انرولمنٹ کارڈ کا عکس.
پولیس کے مطابق خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد گرفتار ہونے والے دہشت گرد کی معلومات پر کراچی کے علاقے گلزار ہجری میں قائم گلشن کنیز فاطمہ میں مزید دہشت گردوں کے خلاف پولیس، رینجرز سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ایک مکان پر چھاپہ مارا تاہم مسلح ملزم نے فائرنگ کردی جس سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور ایک اہلکار زخمی ہوگیا۔
واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والےاداروں نے مذکورہ مکان اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذکورہ مکان پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں ایک دہشت گرد زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے
پولیس کا دعویٰ تھا کہ فرار ہونے والا دہشت گرد کالعدم تنظیم انصار الشریعہ سے تعلق رکھتا ہے۔
ضلع ملیر کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شدید زخمی حالت میں فرار ہونے والے دہشت گرد کی شناخت کالعدم تنظیم انصار الشریعہ کے مرکزی کمانڈر عبدالکریم سروش صدیقی کے نام سے ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ فرار ہونے والا ملزم سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد خواجہ اظہار الحسن پر گذشتہ دنوں ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ہے جبکہ رکن صوبائی اسمبلی پر حملہ کے بعد فرار ہونے کی کوشش میں ہلاک جانے والا حسان فرار ہونے والے ملزم کا ساتھی تھا۔
راؤ انوار نے بتایا کہ عبدالکریم سروش صدیقی جامعہ کراچی میں اپلائڈ فزکس کا طالب علم ہے جبکہ پولیس نے مکان سے سروش صدیقی کے والدین کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ سروش صدیقی کے زیر حراست والد ریٹائر پروفیسر سجاد کی نشاندہی پر ڈيفنس سے کالعدم انصارالشريعہ کراچی کے ترجمان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ سروش صدیقی کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔
پولیس اور رینجرز نے مزید ملزمان کی تلاش میں سچل، سہراب گوٹھ، ملیر سٹی اور ڈیفنس کے علاقوں میں بھی چھاپے مار کر کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ اظہار پر حملہ شہر کا امن تباہ کرنے کی سازش ہے،آئی جی سندھ
پولیس کارروائی میں 4 دہشت گرد ہلاک
بعد ازاں ڈان نیوز نے ایس ایس پی راؤ انوار کے حوالے سے بتایا کہ ایک علیحدہ واقعے میں کوئٹہ ٹاؤن، صدف سوسائٹی میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جبکہ ہلاک دہشت گردوں کی شناخت کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں نے کارروائی کالعدم انصار الشریعہ کے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کی تھی۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مولوی فضل اللہ کا قریبی رشتہ دار خورشید بھی شامل ہے جو پاک فوج کے افسران اور ملالہ یوسفزئی پر حملوں میں ملوث تھا۔
خیال رہے کہ 2 ستمبر کو متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ حملے کے نتیجے میں خواجہ اظہار الحسن کا ایک محافظ اور ایک 12 سالہ لڑکا جاں بحق جبکہ ایک محافظ سمیت 2 افراد زخمی ہوئے تھے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کے محافظوں کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور مارا گیا جس کے قبضے سے ایک 9 ایم ایم پستول اور اس کی موٹر سائیکل کو قبضے میں لے لیا گیا جبکہ ایک حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
بعد ازاں اس حملے کے حوالے سے انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس (آئی جی پی) اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما خواجہ اظہارالحسن پر قاتلانہ حملہ شہر کا امن و امان خراب کرنے کی سازش تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے میں کون ملوث ہے اس کی قیاس آرائیوں سے تفتیش متاثر ہوتی ہے، تاہم حملہ شہر کا امن و امان خراب کرنے کی سازش تھی۔
واضح رہے کہ خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم انصار الشریعہ پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قبول کی تھی۔
تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ حملے کے بعد ان کا کوئی بھی حملہ آور ہلاک یا گرفتار نہیں ہوا۔