شمالی کوریا کا 'چھٹا جوہری تجربہ'، جاپان کی تصدیق
سیئول: شمالی کوریا کی جانب سے مبینہ طور پر چھٹے جوہری تجربے کے بعد 6.3 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جاپان نے شمالی کوریا کے جوہری تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے پیونگ یانگ کو باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروایا۔
جاپان کے وزیر خارجہ تارو کونو نے میڈیا کو بتایا کہ 'محکمہ موسمیات اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کی حکومت تصدیق کرتی ہے کہ شمالی کوریا نے جوہری تجربہ کیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ جاپانی حکومت نے شمالی کوریا سے احتجاج کرتے ہوئے اس جوہری تجربے کو 'ناقابل معافی' قرار دیا ہے۔
اس سے قبل جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ شمالی کوریا نے چھٹا جوہری تجربہ کیا ہے، جس کی بعدازاں جاپان نے تصدیق کردی۔
جنوبی کوریا کی ویدر ایجنسی اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا کہنا تھا کہ مقامی وقت کے مطابق رات 12 بجکر 29 منٹ پر شمالی صوبے ہیم گیونگ میں 5.6 شدت کے مصنوعی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
تاہم امریکی جیولوجیکل سروے نے دھماکے کے نتیجے میں زلزلے کے پہلے جھٹکے کی شدت 6.3 بتائی۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا ایک اور میزائل تجربہ، جاپان کو تشویش
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گذشتہ دنوں شمالی کوریا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے لیڈر کِم جونگ ان نے ہائیڈروجن بم کی تیاری کا معائنہ کیا۔
دوسری جانب شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ شام ساڑھے 6 بجے 'اہم اعلان' کرے گا۔
شمالی کوریا نے ستمبر 2016 میں اپنے پانچویں اور اب تک کے 'سب سے بڑے' کامیاب جوہری تجربے کا اعلان کیا تھا، جس کے نتیجے میں پونگی ری نیوکلیئر ٹیسٹ سائٹ کے قریب 5.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔
جنوری 2016 میں ہی شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کے پہلے کامیاب تجربے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کی سفاکانہ پالیسیوں سے بچنے کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو مزید طاقتور بنانے کا عمل جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کا ہائیڈروجن بم تجربے کا دعویٰ
شمالی کوریا کو اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کے باعث عالمی برادری بالخصوص امریکا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالمی سطح پر اس کے تعلقات مزید خراب ہوچکے ہیں، تاہم اس کے باوجود بھی شمالی کوریا پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔
گذشتہ ماہ 29 اگست کو شمالی کوریا نے ایٹمی مواد لے جانے کی صلاحیت کے حامل درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کا دعویٰ کیا تھا، جو جاپان کے اوپر سے گزرتا ہوا شمالی بحر الکاہل میں اپنے ہدف تک پہنچا تھا۔
شمالی کوریا کے اس میزائل تجربے کے بعد جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے شمالی کوریا کے اس میزائل تجربے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
وزیراعظم شنزو ایبے کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے جارحانہ طریقے سے میزائل کے تجربات پر جاپان اور امریکا کی پوزیشن ایک جیسی ہے جبکہ دونوں رہنماؤں نے پیونگ یانگ کی جارحانہ حکمت عملی کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق امریکی صدر نے جاپانی وزیراعظم کو شمالی کوریا کی کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں جاپان کا دفاع کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
شمالی کوریا-امریکا لفظی جنگ
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اب امریکا شمالی کوریا کے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔
بعد ازاں امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے جواب میں اسے خبردار کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک میزائل تجربہ کیا تھا۔
امریکی صدر نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیونگ یانگ کو اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے لیے بہتر ہے کہ وہ اب امریکا کو مزید دھمکیاں نہ دے ورنہ اسے ایسے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا جو آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔
امریکی صدر کے اس بیان کے بعد شمالی کوریا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’نامعقول‘ شخص قرار دے کر بحر الکاہل میں امریکی فوجی اڈے گوام کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
بعد ازاں شمالی کوریا کے سپریم کمانڈر کم جونگ ان نے امریکی جزیرے گوام کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ترک کرتے ہوئے امریکا کو آئندہ شمالی کوریا مخالف بیان دینے پر خبردار کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔