پاکستان

بہتر سیکیورٹی ہوتی توبے نظیر بھٹو کا قتل روکنا ممکن ہوتا، عدالت

اگر راولپنڈی ڈسٹرکٹ پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے بہتر اقدامات کیے جاتے تو بے نظیر بھٹو کے قتل کو روکا جاسکتا تھا، عدالت

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ دینے والی راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) نے اپنےتفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ 'اگر راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے بہتر اقدامات کیے جاتے تو بے نظیر بھٹو کے قتل کو روکا جاسکتا تھا'۔

اے ٹی سی کے جج محمد اصغر خان کی جانب سے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا 46 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے جس میں قتل کی اصل وجوہات ناقص سیکیورٹی کو قرار دیا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 'بے نظیر بھٹو کا قتل نامعلوم خودکش بمبار کی جانب سے بم دھماکے کے بعد ایک حملے میں فائرنگ کے نتیجے میں ہوا جب وہ لیاقت باغ میں ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں'۔

اے ٹی سی کے فیصلے کے مطابق بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے پاس 15 سالہ بچے کی جانب سے دھماکا گیا جس پر' کسی کو بھی یقین نہیں آتا کہ اس لڑکےنے اکیلے یہ کام کیا ہو'۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 'حکومتی عہدیداربے نظیر بھٹو کو پہلے سیکیورٹی دینے میں ناکام رہے اور دوسرا قتل کے تمام ذمہ داروں کی تفتیش کرنے میں نہ صرف حملے کے حوالے سے بلکہ اس وجوہات، منصوبہ بندی اور مالی تعاون کے حوالے سے تفتیش کرنے میں بھی ناکام رہے'۔

یہ بھی پڑھیں:بےنظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ 10 سال بعد محفوظ

عدالت کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے سے تحقیقاتی عمل کو نقصان پہنچا اور قتل کی اصل وجوہات سامنے نہیں آسکیں۔

استغاثہ قتل کی منصوبہ بندی اور تحریک طالبان پاکستان کے ملزما ن کے درمیان قتل کی سازش کو ثابت کرنے میں ناکام ہوئی، استغاثہ گرفتار پانچوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی اس لیے پانچوں گرفتار ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جارہا ہے۔

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے بے نظیر کے لیے 'باکس' سیکیورٹی 'فراہم کرنا تھی لیکن وہ فراہم نہیں کی گئی تھی اور ملزم سی پی او سعود عزیز نے سیکیورٹی کو ہٹادیا تھا اور کسی حادثے کی صورت میں ایمرجنسی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا'۔

یہ بھی پڑھیں:بینظیر قتل کیس: بری کیے گئے ملزمان مزید 30 دن زیرحراست رہیں گے

اے ٹی سی نے کہا ہے کہ 'استغاثہ رفاقت حسین، حسنین گل، رشید احمد اور شیرزمان کو مجرم ثابت کرنے میں ناکام رہے اس لیے عدالت نے انھیں شک کی بنیاد پر بری کر دیا'۔

سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ٹاؤن خرم شہزاد کو عدالت نے 17، 17 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

پرویز مشرف کو پیش ہوکر صفائی دینے کے لیے بار بار سمن جاری کیے گئے، پرویز مشرف کو اسکائپ کے ذریعے بھی بیان دینے کی پیش کش کی گئی۔

اے ٹی سی نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف الگ مقدمہ چلایا جائے گا۔