پاکستان

پی پی پی کو بینظیر بھٹو قتل کیس کے ٹرائل میں دلچسپی نہیں

قتل کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پی پی پی کا کوئی رہنما یا کارکن کمرہ عدالت یا اڈیالہ جیل کے باہر موجود نہیں تھا۔

اسلام آباد: راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے گذشتہ روز سنائے جانے والے بینظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے پر احتجاج کے اعلان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنی سابق رہنما کے قتل کیس کے ٹرائل میں سنجیدہ نظر نہیں آتی جیسا کہ فیصلے کے موقع پر پارٹی کا ایک بھی رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد 2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی پی پی نے کامیابی حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے بعد مذکورہ کیس کی تحقیقات فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کردی تھی اور اقوام متحدہ سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی تھی۔

2013 میں پی پی پی کے سیکریٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالت میں بینظیر بھٹو قتل کیس میں فریق بننے کے لیے درخواست دائر کی تھی، جس میں زور دیا گیا تھا کہ پارٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سابق رہنما کے قتل کے کیس میں شمولیت اختیار کرے۔

مزید پڑھیں: بینظیر قتل کیس کا فیصلہ،مشرف اشتہاری قرار، پولیس افسران گرفتار

عدالت نے مذکورہ درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت قتل کیس میں فریق نہیں بن سکتی، بعد ازاں ٹرائل سے منسلک رہنے کے لیے پی پی پی کے سیکریٹری جنرل نے ایک درخواست پارٹی کے کارکن مقتول تنویر کائرہ کے ورثا کی جانب سے دار کی جو 27 دسمبر 2007 کے واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ سردار لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالت میں ہونے والی کچھ ابتدائی سماعتوں میں شرکت کی لیکن جب کارروائی کی رفتار کم ہوگئی تو انہوں نے خود کو کیس سے علیحدہ کرلیا، کچھ ہفتے قبل عدالت نے مذکورہ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے اس کا ٹرائل روزانہ کی بنیادوں پر کرنے کا اعلان کیا لیکن سردار لطیف کھوسہ اور نہ ہی ان کا کوئی ساتھی عدالت میں پیش ہوا۔

اس حوالے سے پی پی پی راولپنڈی کے صدر عامر فدا پراچہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت پارٹی کو مذکورہ کیس میں فریق بنانے کی درخواست مسترد کرچکی ہے، اس لیے وہ سماعت میں شریک نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک ایسے کیس میں کیوں جاتے جس میں ہم فریق ہی نہیں تھے‘۔

ترجیحات

دوسری جانب پی پی پی کی قیادت نے متعدد کیسز میں دلچسپی کا اظہار کیا جس میں وہ فریق بھی نہیں تھے اور یہ کیسسز بینظیر بھٹو قتل کیس کے ساتھ جاری تھے۔

مثال کے طور پر پی پی پی قیادت نے سپریم کورٹ میں جاری پاناما کیس کی کارروائی میں دلچسپی دکھائی اور کیس کی آخری سماعتوں میں بھی شرکت کی جس کے فیصلے کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو سبکدوش ہو کر گھر جانا پڑا، اس کیس میں نہ تو پی پی پی فریق ہی تھی اور نہ ہی وہ اس میں جواب دہندہ تھی۔

اسی طرح سردار لطیف کھوسہ، سپر ماڈل ایان علی کیس میں متعدد مرتبہ خصوصی کسٹم اینڈ ایکسائز عدالت میں دفاع کے لیے وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے، یہ عدالت بینظیر بھٹو قتل کیس کا ٹرائل کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے چند قدم کے فاصلے پر قائم ہے۔

اس کے علاوہ پی پی پی کے رہنما اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک اور اس کے ساتھی راولپنڈی کی احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں جس نے حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کو آخری کرپشن ریفرنس میں بھی بری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بے نظیر قتل کیس: پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد

یہاں تک کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی آخری سماعتوں میں پی پی پی کے جونیئر وکیل بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور جس وقت فیصلہ سنایا گیا اس وقت کمرہ عدالت میں صرف نصف درجن ہی وکیل موجود تھے۔

تاہم ان وکلاء کو جب بتایا گیا کہ کیس کا فیصلہ اڈیالہ جیل میں سنایا جائے گا تو بھی کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

اس موقع پر پی پی پی کا ایک بھی کارکن یا پی پی پی وکلاء فورم کا ایک بھی رکن اڈیالہ جیل کے باہر موجود نہیں تھا۔

اس معاملے پر سردار لطیف کھوسہ سے رد عمل لینے کی متعدد مرتبہ کوششیں کی گئیں تاہم وہ بے سود ثابت ہوئیں۔


یہ رپورٹ یکم ستمبر 2017 کو ڈان اکبار میں شائع ہوئی