احتجاج کے باعث امریکا سے مذاکرات معطل کیے، وزیر خارجہ
اسلام آباد: وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اسلام آباد نے امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور دو طرفہ دورے معطل کیے۔
سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا، جس میں ذرائع کے مطابق اپوزيشن ارکان نے امریکا سے متعلق خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں امریکی صدر کے حالیہ بیان کے بعد بنائی گئی خصوصی کمیٹی کی سفارشات پر غور کیا گیا، اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے بتایا ہے کہ کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ وزیر خارجہ امریکا جانے کے بجائے چین، روس اور دیگر ممالک کا دورہ کریں۔
اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی جانب سے امریکا کے پاکستان پر لگائے گئے الزامات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق خواجہ آصف نے امریکا کے حوالے سے ہر اقدام پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کروائی، ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کی پالیسی کے بارے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بدھ کو ہونے والے اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوگا، اس کے بعد وزیر خارجہ کی درخواست پر ہول کمیٹی کا اجلاس اِن کیمرہ کرکے تمام گیلریاں خالی کرالی گئیں۔
مزید پڑھیں: مذاکرات کا شیڈول تبدیل: پاک-امریکا تعلقات میں غیریقینی صورتحال
ادھر ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خواجہ محمد آصف نے اِن کیمرہ اجلاس کے دوران سینیٹرز کو بتایا کہ بھارت کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
ان کا یہ دعویٰ متعدد سینیٹرز کے لیے حیران کن تھا، جن کا ماننا تھا کہ بھارت پہلے ہی سے افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کررہا ہے۔
اجلاس میں شریک ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ بیشتر ارکان بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کو اسپانسر کرنے کے بارے میں تفصیلات جاننے کے خواہش مند تھے، جس میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسسز ونگ (را) کا ایجنٹ کلبھوشن یادیو بھی شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اپوزيشن ارکان نے امریکا سے متعلق خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا، بعض ارکان کی طرف سے قرار داد پاس کرانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز بھی دی گئی۔
جس کے بعد چھ رکنی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کا مزید جائزہ لینے کے لیے سینیٹ ہول کمیٹی کا اجلاس بدھ کی سہہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرانے کی تجویز
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 21 اگست کو افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔
نئی امریکی پالیسی میں افغانستان میں بھارت کو اہم کردار دینے کا اشارہ بھی کیا گیا تھا جو پاکستان کے ان خدشات میں اضافے کا سبب بنا تھا کہ بھارت اس موقع کو استعمال کرکے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مسائل پیدا کرے گا۔
اس حکمت عملی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے امریکی اور افغان فورسز پر ہونے والے مبینہ سرحد پار حملوں کو نہیں روکتا تو تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
بعد ازاں 26 اگست کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ ایلس ویلز 28 اگست کو اسلام آباد پہنچیں گی جبکہ اس دوران ان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام سے ملاقاتیں طے تھیں۔
مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام
تاہم اسلام آباد کی جانب سے قائم مقام امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کو ملتوی کرنے کا مطالبہ نئی امریکی حکمت عملی پر پاکستان اور امریکا کے درمیان بات چیت کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوا۔
اتوار (27 اگست) کو امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے صحافیوں کو آگاہ کیا کہ ’حکومت پاکستان کی درخواست پر ایلس ویلز کا دورہ پاکستان ملتوی کردیا گیا ہے تاہم دونوں حکومتیں باہمی مشاورت سے دورے کی نئی تاریخ کا اعلان کریں گی‘۔
واضح رہے کہ ایلس ویلز کے دورے کے شیڈول میں کی جانے والی یہ تبدیلی گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا اس نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔
اس سے قبل پاکستان وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہ واشنگٹن کو ملتوی کرنے کا مطالبہ بھی کرچکا ہے، جنہیں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کی دعوت پر 25 اگست کو امریکی دارالحکومت پہنچنا تھا۔