پاکستان

مذاکرات کا شیڈول تبدیل: پاک-امریکا تعلقات میں غیریقینی صورتحال

ایلس ویلز کے دورے کے شیڈول میں تبدیلی گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا اس نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔

واشنگٹن: اسلام آباد کی جانب سے قائم مقام امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کو ملتوی کرنے کا مطالبہ نئی امریکی حکمت عملی پر پاکستان اور امریکا کے درمیان بات چیت کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوا۔

اتوار (27 اگست) کو امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے صحافیوں کو آگاہ کیا کہ ’حکومت پاکستان کی درخواست پر ایلس ویلز کا دورہ پاکستان ملتوی کردیا گیا ہے تاہم دونوں حکومتیں باہمی مشاورت سے دورے کی نئی تاریخ کا اعلان کریں گی‘۔

واضح رہے کہ ایلس ویلز کے دورے کے شیڈول میں کی جانے والی یہ تبدیلی گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا اس نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے مطالبے پر امریکی نائب وزیرخارجہ کا دورہ ملتوی

اس سے قبل پاکستان وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہ واشنگٹن کو ملتوی کرنے کا مطالبہ بھی کرچکا ہے، جنہیں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کی دعوت پر 25 اگست کو امریکی دارالحکومت پہنچنا تھا۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کی سینئر عہدیدار لیزا کرٹس کی سربراہی میں آنے والے امریکی وفد کا دورہ بھی ملتوی ہوجائے گا۔

جنوبی ایشیاء کے لیے نئی امریکی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی لیزا کرٹس کا آئندہ ہفتے دورہ اسلام آباد متوقع تھا۔

دوسری جانب کابینہ، خارجہ امور اور سیکیورٹی سطح پر تجویز کردہ مذاکرات کا مقصد اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ امریکا اور پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی 21 اگست کی تقریر میں واضح کی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنے تعلقات کی دوبارہ تعمیر کس طرح کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔

نئی امریکی پالیسی میں افغانستان میں بھارت کو اہم کردار دینے کا اشارہ بھی کیا گیا تھا جو پاکستان کے ان خدشات میں اضافے کا سبب بنا تھا کہ بھارت اس موقع کو استعمال کرکے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مسائل پیدا کرے گا۔

اس حکمت عملی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے امریکی اور افغان فورسز پر ہونے والے مبینہ سرحد پار حملوں کو نہیں روکتا تو تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

قبل ازیں 26 اگست کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ ایلس ویلز 28 اگست کو اسلام آباد پہنچیں گی جبکہ اس دوران ان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام سے ملاقاتیں طے تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی نمائندہ خصوصی رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گی

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے دوران یہ ایلس ویلز کا دوسرا دورہ پاکستان ہوتا، وہ 3 اور 4 اگست کو بھی اپنے ’تعارفی دورے‘ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات سے ملاقات کرچکی ہیں۔

اسی دورے کے دوران انہوں نے نئی دہلی کا بھی رخ کیا تھا۔

ایک جانب جہاں امریکی حکمت عملی پر مشاورت کے لیے اسلام آباد اپنے اتحادیوں بالخصوص چین سے حمایت طلب کرچکا ہے، واشنگٹن کے مبصرین خبردار کرتے ہیں کہ نئی پالیسی پاکستان اور امریکا کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا سبب بنے گی۔

رواں سال جون تک پاکستان اور افغانستان میں واشنگٹن کے خصوصی سفیر لارل ملر نے خبردار کیا کہ بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دینے کا امریکی فیصلہ ’پاکستانیوں کو واضح حد تک مخالف‘ کردے گا کیونکہ یہ پاکستان کی دکھتی رگ کو چھیڑنے جیسا ہے۔

سینئر امریکی حکام نے نیوز بریفنگ میں اس حکمت عملی کے بعد اسلام آباد کی جانب سے افغانستان تک امریکی سپلائی کو روکنے کے امکان کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن اب بھی پاکستان سے گزرنے والے راستوں پر انحصار کرتا ہے جبکہ امریکی صدر کا افغانستان میں امریکی فوجی تعداد میں اضافے کا فیصلہ اس سپلائی لائن کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے امریکا نے براستہ پاکستان افغانستان تک جانے والے راستوں کو لاحق خدشات پر غور نہیں کیا۔

امریکی عہدے دار کے مطابق ’پاکستان میں موجود زمینی راستے امریکا کے لیے نہایت اہم ہیں، واشنگٹن ایسے وقت کا سامنا کرچکا ہے جب اسے شمالی روٹ پر انحصار کرنا پڑا، جو زیادہ مہنگا اور بہترین آپشن نہیں تھا‘۔

انہوں نے کہا ’لہذا ہم پاکستان میں موجود راستوں کو اہم سمجھتے ہیں‘۔


یہ خبر 28 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔