نقطہ نظر

کراچی میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندی سے کس کو فائدہ ہے؟

پیپلز پارٹی سندھ میں گزشتہ 8 برسوں سے اقتدار میں ہے لیکن صوبائی دارالخلافہ میں اس کا انتخابی اثر تیزی کم ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ متحدہ قومی موومینٹ کے تین دھڑے، ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم حقیقی اور پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی)، آپس میں ضم ہو کر ایم کیو ایم کو کراچی کی سب سے بڑی پارٹی بنائیں گے۔

1980 کی دہائی میں اپنے سیاسی آغاز سے ہی ایم کیو ایم کراچی کے انتخابی میدان میں کامیابیاں حاصل کرتی رہی ہے۔ لیکن گزشتہ دو برسوں، اور بالخصوص اگست 2016 کے بعد، سے پارٹی میں دھڑے بازی شروع ہو گئی۔

کراچی کی اکثریتی اردو بولنے والی برادری (مہاجر) کی نمائندگی کرنے والی ایم کیو ایم کے چار دھڑے ہیں۔ پہلا دھڑا ایم کیو ایم حقیقی تھا جو 1992 میں ابھر کر سامنے آیا۔ لیکن حقیقی ہمیشہ سے ایک چھوٹا سا دھڑا ہی رہا ہے، جس نے مرکزی پارٹی پر ’مہاجر قوم پرستی سے غداری’ کا الزام عائد کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حقیقی محدود انتخابی طاقت رکھتی ہے۔

پی ایس پی کا قیام کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال 2016 کی ابتدا میں عمل میں لائے، مصطفیٰ کمالی ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما رہ چکے تھے۔ کمال ایک مقبول عام میئر تھے اور کراچی میں رہائش پذیر مختلف لسانی گروہ بھی ان سے کافی متاثر تھے۔ مگر 2015 میں ان کے ایم کیو ایم کے بانی اور سربراہ الطاف حسین سے اختلافات پیدا ہو گئے اور مارچ 2016 میں انہوں نے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔

ایم کیو ایم پاکستان، جو کہ سب سے بڑا دھڑا ہے، اس وقت سامنے آیا جب کراچی میں موجود پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے الطاف حسین کو پارٹی صدارت سے فارغ کر دیا۔ انہوں نے الطاف حسین پر ’پاکستان سے مخالفت’ اور اپنی 'غیر سنجیدہ پالیسیوں اور بیانات’ سے ’نوجوان مہاجروں کی زندگیاں تباہ' کرنے کا الزام عائد کیا۔

چوتھا دھڑا، جسے ایم کیو ایم لندن کا نام دے دیا گیا ہے، بنیادی طور پر الطاف کے وفاداروں پر مشتمل ہے، جن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو کہ لندن میں خود ساختہ جلاوطن رہنما کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کا نام ایم کیو ایم پاکستان اور میڈیا نے رکھا، تاکہ ایک ایسے دھڑے کو بیان کیا جائے جو الطاف حسین کے بے حد جارح (اور کئی مواقع پر تو 'بے تکے’ ) سیاسی خیالات کا حامی ہے۔

تدریس کے شعبے سے وابستہ اور 'کراچی: آرڈرڈ ڈس آرڈر اینڈ اسٹرگل فار دی سٹی' کے فرینچ مصنف لارینٹ گیئر، اور ڈچ اسکالر آسکر ورکائک، جو کہ 'مائیگرینٹس اینڈ ملیٹینٹس' کے مصنف ہیں، نے ایم کیو ایم پر ایک جامع فیلڈ ریسرچ کی۔ ان کا کہنا ہے کہ الطاف کو طاقت ابتدائی طور پر اپنے کرشماتی اثر اور کراچی کے اندر جنرل ضیا کی آمریت (88-1977) کے دوران شروع ہونے والی لسانی منافرت کے استعمال کے انداز سے حاصل ہوئی۔

اس کے بعد دونوں مصنفین یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ 1990 کی دہائی سے الطاف حسین کو پارٹی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں پارٹی کے اندر موجود ان کے زیر اثر مبینہ ’عسکری ونگ’ نے مدد فراہم کی۔ اسی لیے 2016 میں انہیں نکالا جانا کراچی کی پارٹی قیادت کا ایک انتہائی قدم تھا۔ چند برس قبل تک تو ایسا کوئی قدم اٹھانا تقریباً ناممکن تھا۔

یہ غیر معمولی کام پولیس اور سندھ رینجرز کی کراچی میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا، ان کارروائیوں کو، کئی مواقع پر متنازع ہونے کے باوجود، کراچی کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔

رینجرز کے مطابق، آپریشن کا مرکزی طور پر ہدف مذہبی دہشتگرد تنظیمیں اور جرائم پیشہ مافیا تھیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ’عسکری ونگ’ کے خلاف بھی بھرپور کارروائیاں کی گئیں۔ آپریشن کے خلاف الطاف حسین کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی سے کراچی کی ایم کیو ایم قیادت کو وفاداروں کے زیادہ نامناسب رد عمل کا سامنا کیے بغیر الطاف حسین کے اثر سے نکلنے کا موقع مل گیا۔

جب ایم کیو ایم پاکستان کا قیام ہوا تب کئی ماہرین کا ماننا تھا کہ الطاف حسین اب بھی پارٹی کے انتخابی حلقوں میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ لیکن کراچی کے اندر گزشتہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں، پی ایس 127 اور پی ایس 114، کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ نئی ایم کیو ایم نے اپنے ووٹوں کا بہت ہی معمولی حصہ کھویا ہے۔

مگر ان انتخابات میں فتح پیپلز پارٹی کی ہوئی۔ یہی وہ پارٹی ہے جس نے ایم کیو ایم کے اندرونی بحران سے شاید سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے لیے خطرے گھنٹیاں خاص طور پر اس وقت بجنی شروع ہو گئیں جب انتخابی مبصرین نے نوٹ کیا کہ اس حلقے میں ایم کیو ایم کے ایک چھوٹے حصے نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ الطاف حسین کے حامی تھے بلکہ یہ ووٹ پیپلز پارٹی کی شہر کے اندر ایک قسم کی انتخابی حیات نو کا حصہ تھے، پارٹی کو یہ حیات سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ نے اپنی جامع ترقیاتی پالیسیوں کی مدد سے بخشی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ میں گزشتہ 8 برسوں سے اقتدار میں ہے، لیکن صوبائی دارالخلافہ میں اس کا انتخابی اثر تیزی کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن حالات اس وقت کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے جب 2016 میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری کو عمر رسیدہ قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

کراچی کی انتخابی تاریخ بہت ہی پیچیدہ رہی ہے۔ 1970 کی دہائی کے آخر تک، یہاں کی مہاجر اکثریت میں زیادہ تر نے قومی دھارے کی دو مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کو ووٹ دیے۔ کراچی کی سیاست کے حوالے سے یہ تھوڑی دلچسپ بات ہے کیونکہ کراچی ملک کا سب سے زیادہ کثیرالثقافتی (جو اب بھی ہے) اور بین الاقوامی شہر تھا۔

مہاجر سیاست پر اپنے مفصل ریسرچ پیپر میں آئی ایچ ملک یہ بات کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں کہ مہاجر ’سماجی طور پر لبرل’ لیکن ’سیاسی طور پر قدامت پسند تھے’۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک یکجا گروہ کی صورت میں نہیں تھے اور انہوں نے دیکھا کہ زیادہ تر جماعتوں پر مخصوص لسانی برادریاں ہی غالب ہیں۔

1984 میں قائم ہونے والی ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ایک الگ لسانی گروہ میں منظم کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا۔ اس نے برادری کی سماجی آزاد خیالی کو مہاجر قوم پرستی کے ایک خیالی تصور سے ملا دیا، یوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کا پتہ کاٹ دیا گیا۔

1988 سے ایم کیو ایم نے کراچی میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنا شروع کیں۔ پیپلز پارٹی سندھی اور بلوچ برادریوں کے ووٹوں کے سہارے شہر کی دوسری بڑی جماعت رہی۔

لیکن سینئر صحافی مظہر عباس نے حال ہی میں جیو نیوز پر کہا کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کا انتخابی زور ایم کیو ایم بننے سے قبل ہی مشکلات سے دو چار تھا۔ جنرل ضیا کے دور میں ہونے والے 1979 کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اکثریت میں کامیابی حاصل کی۔

مظہر عباس نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی کی میئر نامزد کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی کیونکہ اس عہدے کے لیے ان کے امیدوار کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ آمریت ایک ایسی پارٹی کے میئر کی موجودگی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جس کی حکومت 1977 میں اس نے خود اپنے ہاتھوں سے گرائی تھی۔

2013 میں، عمران خان کی درمیانی-دائیں بازو کی جماعت پی ٹی آئی نے کراچی میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں اور شہر کی بڑی پختون برادری، جو کہ روایتاً پختون قوم پرست تنظیموں کی ووٹر تھی، کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنا ایک گہرا اثر چھوڑا۔ مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی مخلوط حکومت (2013-2008) کے دوران کراچی میں امن و امان کی صورتحال زبردست حد تک خراب ہوئی تھی۔

2013 میں کئی مہاجر ووٹ پی ٹی آئی کے حصے میں آئے۔ ایم کیو ایم میں گھبراہٹ بڑھتی گئی، اور اس نے خود کو پیپلز پارٹی اور اے این پی سے الگ کر دیا۔ لیکن کراچی کی انتخابی سیاست میں چھائی پی ٹی آئی کی زبردست لہر کچھ دنوں کی مہمان ہی رہی اور یہ کراچی کے تمام ضمنی انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔

کراچی میں پیپلز پارٹی کی انتخابی حیات نو سے چوکنا ہو کر ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں کے ایک ہو جانے کی حالیہ کوشش اشارہ ہے کہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ دھڑے بندی کی وجہ سے وہ نہ صرف کراچی کو اپنے ہاتھوں سے پیپلز پارٹی کے سپرد کر دیں گے بلکہ شاید اس طرح پی ٹی آئی کو بھی اس افرا تفری سے بھرپور شہر میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔

یہ مضمون 27 اگست 2017 کو ڈان کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔