پاکستان

سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی اراکین کو نیب کے سامنے پیش ہونے کی اجازت

نیب کی درخواست پر نگران جج نے جے آئی کے سربراہ اور اراکین کو بیان قلم بند کرنے کی اجازت دے دی ہے، ڈپٹی رجسٹرار
|

سپریم کورٹ نے پاناما لیکس مقدمے میں نواز شریف اور ان کے بچوں کےاثاثوں کی تفتیش کا عمل انجام دینے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور اراکین کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے بیان قلم بند کرنے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نذرعباس کی جانب سے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کوجاری اجازت نامے میں انھیں اور دیگر اراکین کو نیب کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے اجازت نامے میں کہا گیا ہے کہ 'نیب کی جانب سے 19 اگست کو کی گئی درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے نگران جج نے تمام قانونی پہلووں اور ضروریات کو یقینی بنانے کے لیے جے آئی ٹی کے سربراہ اور دیگر اراکین کو نیب کے سامنے بیان قلم بند کروانے کی اجازت دی ہے'۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں اقامہ رکھنے اور بیٹے کی کمپنی سے قابل وصول تنخواہ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو نواز شریف، ان کے بچوں حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر، سمدھی اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے جسٹس اعجاز الاحسن کو نیب کی تفتیش کی نگرانی کے لیے مقرر کردیا تھا۔

خیال رہے کہ نیب اسلام آباد نے نگران جج کو جے آئی ٹی کے اراکین کے بیانات ریکارڈ کرنے سے متعلق گزشتہ ہفتے درخواست دی تھی۔

قبل ازیں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر نیب کے سامنے بیان دینے سے انکار کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق نیب، جےآئی ٹی اراکین کے بیانات بطور استغاثہ گواہ کے قلم بند کرے گا۔

خیال رہے کہ 6 اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے حوالے سے اپنی تفتیش 10 جلدوں پر مکمل کرکے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔

دوسری جانب نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں، داماد اور اسحٰق ڈار کو پیش ہونے کے لیے لکھا تھا لیکن وہ پیش نہ ہوئے تھے۔

نواز شریف اور ان کے بچوں کے علاوہ اسحٰق ڈار نے نیب کی کارروائی کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے پیش ہونے سے انکار کیا تھا جبکہ اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے درخواست بھی جمع کرادی گئی ہے۔