پاکستان

پاناما فیصلہ : نوازشریف کی ایک اور نظرثانی درخواست

وزارت عظمیٰ سے جس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، وہ معاملہ استدعا میں موجود ہی نہیں تھا، سابق وزیر اعظم کا موقف

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں فیصلے پر نظر ثانی کے لیے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔

نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے نظر ثانی درخواست جمع کرائی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پاناما پیپرز کیس کی درخواست میں ایف زیڈ ای کی استدعا موجود ہی نہیں اسی کی بنیاد پر انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ تنخواہ نہ لینا اور اس کا دعویٰ بھی نہ کرنا بے ایمانی قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ انکم ٹیکس قانون کے مطابق تنخواہ وہی ہوتی ہے جو وصول کی جاتی ہے۔

2013 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر کرنے کے بارے میں درخواست میں کہا گیا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم موجود ہے اگر معاملہ متعلقہ فورم پر جاتا تو دفاع کا موقع بھی ملتا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

نواز شریف نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ایف زیڈ ای کی تنخواہ قابل وصول تسلیم کر لی جائے تو بھی نااہلی نہیں بنتی۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ پاناما پیپرز کیس میں تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر اعتراضات قبل ازوقت قرار دے کر مسترد کر دیے گئے تھے۔

سابق وزیر اعظم کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں عدالت سے 28 جولائی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

اس سے قبل نواز شریف نے 15 اگست کو بھی پاناما فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی نااہلی کا تکنیکی پہلو

نظر ثانی کی اس اپیل میں درخواست کی گئی تھی کہ نظر ثانی اپیل کے فیصلے تک پاناما کیس کے فیصلے پر مزید عمل درآمد کو روک دیا جائے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کی جانب سے سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، لہذا نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

عدالتی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔