نقطہ نظر

امریکا پاکستان سے راہیں جدا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا

وہ لوگ جنہوں نے پوچھا ہے کہ، امریکی فوج کیا سوچ رہی ہے؟ تو جناب ٹرمپ نے آپ کو بتا دیا ہے کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔
لکھاری ولسن سینٹر گلوبل فیلو ہیں اورامریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن کے اسٹاف کا حصہ رہ چکی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی باتیں گیارہ ستمبر کے بعد واشنگٹن میں ہونے والی کسی پریس کانفرنس یا پھر لیک ہونے والے کسی تبصرے سے بھلے ہی مختلف محسوس نہ ہوں لیکن اس بار واشنگٹن کی فضا پہلے سے مختلف ضرور ہے۔

ہمیشہ سے پاکستان کی امداد بند کرنے کی حمایت کرنے والے ایوان نمائندگان کے پاس ایک ایسا وائٹ ہاؤس ہے جو اس کے خلاف دفاعی دیوار تو کیا ہوتا، بلکہ ایک مضبوط حمایت کا مرکز ہے۔ جبکہ سینیٹ، جہاں معقول پالیسی سوچ عموماً برتری پا جاتی ہے، وہ بھی اب ہمدرد نہیں رہی ہے۔

سینیٹر کارل لیون نے 2015 میں کامیابی کے ساتھ قانون میں ترمیم کر کے اس حوالے سے پہلا قدم اٹھایا، اس قانون کے مطابق اگر پاکستان "حقانی نیٹ ورک کے خلاف خاطر خواہ کارروائی کرنے میں ناکام" ہوتا ہے تو امریکا اپنی فوجی امداد روک دے گا۔

عام طور پر ایسی ترامیم ایوان میں پیش ہوتی ہیں اور پھر کسی کونے میں پڑی رہتی ہیں۔ اگر وہ قانون میں تبدیل ہو جائیں تو انہیں غیر فعال کر دیا جاتا ہے: صدر اسے پابندی میں بدلنے کے بجائے چھوٹ دلوا سکتے ہیں۔ پریسلر ترامیم بھی اسی زمرے میں آتی ہیں. سال در سال ان میں چھوٹ دی جاتی رہی۔

اس وقت کی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون کا سخت رویہ اپنانے اور اس میں کامیاب ہونے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ واشنگٹن میں موجود معقول ذہن بھی اب پیار نہیں، مار کی راہ اپنا رہے ہیں۔

فوجی طاقت سے ڈرانا کانگریس کی عادت رہی ہے اور کانگریس ہی امداد اور پابندیوں پر حتمی فیصلے کا اختیار رکھتی ہے، ایسے میں صدر ایک 'اچھے پولیس اہلکار' جیسا کردار ادا کرتا ہے۔ ٹرمپ اس کے بالکل ہی برعکس کردار ادا کرنے پر بضد ہیں۔ اس نے پاکستان کو ایک کٹھن صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

پاکستان کے کانگریس کے ساتھ کبھی بھی مضبوط تعلقات نہیں رہے۔ پاک امریکا تعلقات انتظامی شاخوں، بشمول فوجوں کے درمیان استوار رہے ہیں۔ اب پاکستان کے امریکی اتحادیوں میں صرف محکمہ خارجہ کے چند حلقے، بشمول اسلام آباد میں موجود سفارتکار، چند تھنک ٹینکس، اور پاکستان کی بات سننے والے چند سینیٹرز ہی رہ جائیں گے۔

وہ لوگ جنہوں نے پوچھا ہے کہ، امریکی فوج کیا سوچ رہی ہے؟ تو جناب ٹرمپ نے آپ کو بتا دیا ہے کہ وہ کیا سوچ رہی ہے. امریکا میں صدر ہی کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ جی ہاں یہ سچ ہے۔

ایک مقبول دلیل یہ بھی ہے کہ امریکا پاکستان سے راہیں جدا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس دلیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ پرانی دلیل ہے، کافی پرانی۔ ایک دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ کافی عرصے سے تعاون کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ چند مثبت جذبات بھی دیکھنے کو ملے ہیں، اور سینئر امریکی افسران نے پاکستان کے کاموں کی تعریف بھی کی ہے۔

لیکن ان باتوں کو وہاں اجاگر نہیں کیا جاتا جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ محکمہ دفاع نے لیون کی سفارشات پر ان کے قانون بن جانے کے بعد سے پاکستان کو ہری جھنڈی دکھائی ہے۔ گزشتہ برس، اوباما کے دفاعی سیکریٹری نے کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں 1 ارب ڈالر میں سے 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی تھی۔ رواں سال، ٹرمپ کے سیکریٹری دفاع نے 90 کروڑ ڈالر میں سے بھی 35 کروڑ ڈالر کم کر دیے۔

امریکا کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ، پاکستان راستے جدا کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کچھ کروڑ ڈالر سے اب پاکستان کو ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا۔ پاک چین تعلقات کی قدر و قیمت اب 110 ارب ڈالر بن چکی ہے، اور رواں سال تقریباً 4 ارب ڈالرز ملنے کی توقع ہے۔ اور وہ اربوں ڈالرز بڑی آسانی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

90 کروڑ ڈالرز کی خاطر پاکستان امریکا کے ساتھ ناپائیدار اور بے مہر تعلقات کا بوجھ اٹھاتا ہے جبکہ دوسری طرف چین بغیر کسی ڈرامے کے اربوں ڈالر دے دیتا ہے، صرف اس وعدے پر کہ مستقبل میں پاکستان کی حکومت ان پیسوں کو لوٹا دے گی.

ٹرمپ کے لیے عقلمندی اسی میں ہوگی کہ وہ چین کے ساتھ سازگار تعلقات بنائیں اور پھر اس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ تعلقات سنبھالیں۔ چین پاکستان میں اب وہ طاقت اور اثر و رسوخ رکھتا ہے جو امریکا کو کبھی یہاں حاصل نہیں رہا۔ حالانکہ دونوں ملک پاکستان کو شدت پسندی سے نمٹنے کے لائق بنانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان کے درمیان سفارت کاری میں ہو کا عالم ہے۔

پاکستان نے بہت عرصے پہلے ہی امریکا اور حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔ امریکا میں دہائیوں سے ایک ہی شکایت سنائی دے رہی ہے کہ پاکستان حقانی کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ ٹرمپ کی قومی سلامتی ٹیم اب بھی اس خیال پر کام کر رہی ہے کہ امریکی پیسے کے عیوض اسٹرٹیجک سمت کو بدلا جا سکتا ہے، لیکن وہ تاریخ کو فراموش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے سوات اور فاٹا میں فوجی آپریشنز امریکا کے کہنے پر نہیں کیے تھے بلکہ اس وقت کیے جب یہ فوجی کارروائی ناگزیر محسوس ہوئی۔

ٹرمپ کی اس حکمت عملی میں بہت ہی بڑا رسک ہے۔ خطے سے باہر نکلنا اور پاکستان سے سخت رویہ اپنانا ایک چیز ہے اور افغانستان کی جنگ میں پیر مزید گہرائی تک دھنسانے کے بعد نہ صرف پاکستان سے سخت رویہ رکھنا بلکہ ہندوستان کے ساتھ بھی صفر جمع صفر کی نوعیت کے تعلقات رکھنا اور بات ہے. ایک ہی تقریر میں ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی منسوخی کا تذکرہ کیا اور ہندوستان کے ساتھ مزید قربت کی بات کہی۔

ٹرمپ نے پاکستان کو یہ مشورہ دے کر تضاد پیدا کیا کہ وہ ان اقدار میں اپنا حصہ ڈالے جن کی نمائندگی ہندوستان کرتا ہے: تہذیب، اصول اور امن۔ اس قسم کی سفارتکاری گیارہ ستمبر کے بعد بش کے دنوں کی ‘ہمارے دوست یا ہمارے دشمن’ والی سیاہ اور سفید سفارتکاری سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔

اگر امریکا دوبارہ افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے تو وہ اس کے پڑوسی ملک پاکستان کو تنہا چھوڑنے اور اسی اثنا میں ہندوستان اور افغانستان سے ہاتھ ملانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان پہلے ہی اس وقت ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے.

پاکستان قلیل مدت میں امریکا کو ٹھنڈا کر سکتا ہے، وہ اس چیز میں بہت ہی اچھا ہے. لیکن طویل مدت میں شاید ہی کوئی تبدیلی رونما ہو۔ اسے ٹرمپ کی چال اس لیے نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ کوئی چال نہیں ہے، اب کی بار امریکا واقعی پاکستان سے دستبردار ہونے کے موڈ میں نظر آتا ہے.

اگر پاکستان اپنی راہیں جدا کر لیتا ہے تو کئی لوگ یہ خواہش کریں گے کہ کاش پاکستان کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مزید کوششیں کی گئی ہوتیں.


یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 اگست 2017 کو شائع ہوا۔

نادیہ ناوی والا

لکھاری ولسن سینٹر گلوبل فیلو ہیں اور امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن کے اسٹاف کا حصہ رہ چکی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: NadiaNavi@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔