نقطہ نظر

ہم نے مشرف کو لندن یونیورسٹی میں خطاب سے کیسے روکا

مجھے پورا یقین ہے کہ ایونٹ پر ہمارے تنقیدی ردِ عمل اور متوقع احتجاج کے پیشِ نظر منتظمین پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔

21 اگست کو ہمیں ایک واٹس ایپ گروپ پر ایک اعلان موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ 24 اگست کو سابق پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقن اسٹیڈیز (ایس او اے ایس) میں طلبہ سے خطاب کریں گے۔

بطور ایک طالب علم، مجھے یہ پڑھ کر صدمہ پہنچا کہ ایک شخص جس پر پاکستان میں آئین کی منسوخی اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے جیسے الزامات عائد ہیں اور ان الزامات کے تحت چلنے والے مقدمے میں پیش نہ ہونے پر عدالت جسے مفرور قرار دے چکی ہے، جو بلوچستان کے جائز معاشی اور سیاسی مطالبے تسلیم کرنے پر تیار نہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ بے نظیر قتل کیس میں ایک ملزم بھی ہے، وہ اب ایک ایسی یونیورسٹی میں قدم رکھے گا، جو کہ اپنی ترقی پسند نظریات اور طلبہ کی سرگرمیوں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔

پوسٹر دیکھ کر پتہ چلا کہ پاکستانی چینل دنیا نیوز اس تقریب کا اہتمام کر رہا ہے، اور وہاں ہونے والی گفتگو کو کامران شاہد کے شو آن دی فرنٹ کے لیے ریکارڈ کیا جانا تھا۔ تقریب میں طلبہ مشرف سے براہ راست سوالات بھی پوچھ سکتے تھے۔

ایس او اے ایس پاکستان سوسائٹی نے تقریب کا پوسٹر اپنے فیس بک پیج پر بھی پوسٹ کیا، اور لوگوں سے تقریب میں شرکت کرنے کے لیے نام رجسٹر کروانے کے لیے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔

سوسائٹی نے عوامی طور پر یہ واضح کیا کہ وہ اس تقریب کی باضابطہ طور پر حمایت نہیں کرتی۔ لیکن یہ وضاحت بعد میں پیش کی گئی، جبکہ وہ وضاحت اصلی فیس بک پوسٹ کا حصہ بھی نہیں تھی۔

شو کا اصل پوسٹر۔

پاکستان سولیڈیریٹی کیمپین اور عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ، بلوچ اور سندھی کارکنان، اور دیگر ترقی پسند طلبہ اور اساتذہ سمیت ہم لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے فوراً تقریب کی مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ اور ایس او اے ایس طلبہ یونین سے رابطہ شروع کیا۔

ہماری ای میلز کے جواب میں ایس او اے ایس نے ہمیں بتایا کہ 24 اگست کے لیے مشرف یا کسی ٹی وی چینل کے نام سے کسی کمرے کی بکنگ نہیں ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ جگہ کی بکنگ ایک پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم کے نام پر تھی، جس نے انتظامیہ کو تقریب کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

اس کے فوراً بعد ہم نے ایک مہم شروع کی کہ "ڈکٹیٹر اور اشتہاری پرویز مشرف کا ایس او اے ایس میں خیر مقدم نہیں کیا جائے گا' اور ایک آن لائن پٹیشن شروع کی جس میں ایس او اے ایس سے ایونٹ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سینکڑوں لوگوں نے اس پٹیشن پر دستخط کیے اور ایس او اے ایس کو سینکڑوں ای میلز بھیجی گئیں، جس پر یونیورسٹی کو بالآخر 22 اگست کو ایک نوٹس جاری کرنا پڑا کہ "کسی بھی موقع پر ایسے کسی بھی ایونٹ پر ایس او اے ایس یا طلباء یونین سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔"

اس بات کا انتہائی کم امکان تھا کہ یونیورسٹی نے ایونٹ منسوخ کیا ہوگا یا اس کی حمایت سے دستبردار ہوئی ہوگی۔ کیوں کہ بہرحال ایس او اے ایس نے ماضی میں اس سے بھی بڑے مظاہرے دیکھے ہیں جن کے سامنے وہ نہیں جھکا ہے۔ مشرف کی گفتگو ایس او اے ایس کے زیرِ انتظام نہیں تھی، اور یہ یونیورسٹی کے احاطے میں ایک بیرونی ایونٹ تھا۔

مگر جو ہوا، وہ یہ کہ ہمارے دباؤ نے اصلی منتظمین کو ایس او اے ایس میں اس ایونٹ کے انعقاد سے رکنے پر مبجور کر دیا۔

ایس او اے ایس کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن۔

منسوخی کے بعد یہ افواہ پھیلی کہ منتظمین نے یہ ایونٹ یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر منتقل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ مگر چند گھنٹوں کے اندر ویسٹ منسٹر نے ہماری ای میلز میں سے ایک کا جواب دیتے ہوئے تصدیق کی کہ یونیورسٹی کو اپنے کیمپس میں ایسے کسی بھی ایونٹ کے انعقاد کی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔

پھر ہمیں معلوم ہوا کہ منتظمین نے ایک مقامی پاکستانی ریسٹورینٹ سے وہاں شو کرنے کی درخواست کی تھی۔ نتیجتاً اس ریسٹورینٹ کو بھی سینکڑوں فون کالز موصول ہوئیں اور انہیں بھی بالآخر یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔

منتظمین نے بعد میں دعویٰ کیا کہ انہیں ایس او اے ایس میں اپنا پروگرام شرکت کے خواہشمند افراد کی انتہائی زیادہ تعداد کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا کیوں کہ وہاں اتنے لوگوں کی گنجائش نہیں تھی۔

مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایونٹ پر ہمارے تنقیدی ردِ عمل اور متوقع احتجاج کے پیشِ نظر منتظمین پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔

میں ایک اور نکتے کا جواب دینا چاہتا ہوں جو کچھ لوگوں نے اٹھایا، اور اس ایونٹ سے متعلق چند دیگر مشاہدات پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ مشرف کو بات کرنے دینی چاہیے اور ان کی آزادیءِ اظہار کا احترام کرنا چاہیے۔

مگر مشرف نے خود اس آزادیءِ اظہار کے کلیے کا کتنا احترام کیا؟ سینسرشپ اور اختلافِ رائے کو کچلنا فوجی ادوار کا خاصہ اور وراثت ہیں، خاص طور پر ضیاء الحق کی آمریت کا، جن کے تباہ کن دور کی مشرف نے نہایت بے شرمی سے چند دن قبل تعریف کی۔

اس کے علاوہ اگر سابق ڈکٹیٹر اظہارِ رائے کے لیے اتنے بے تاب ہیں تو اپنا معاملہ عدالت میں کیوں نہیں پیش کرتے؟

میں لندن کی مختلف یونیورسٹیوں میں کئی پاکستانی طلباء (زیادہ تر اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں) کی سیاسی نشونما سے بھی کافی غیر مرعوب ہوں۔ ایس او اے ایس پاکستان سوسائٹی کے ایک رکن نے مجھ سے کہا، "سوسائٹی کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔" پاکستانی طلباء میں اس طرح کا رویہ عام ہے اور کسی وجہ سے وہ "غیر سیاسی" کہلانے پر تقریباً فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر سیاست میں بظاہر عدم دلچسپی کے باوجود ان میں سے کئی پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کے حامی ہیں۔

ایس او اے ایس پاکستان سوسائٹی نے بہرحال ایونٹ کی معلومات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شائع کی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ: ایک ایسا گروپ جس کا "سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں"، وہ کیوں ایک سیاسی ایونٹ کی تشہیر کر رہا ہے، اور وہ بھی ایک سابق ڈکٹیٹر کے شو کی؟

جواب سادہ ہے: ہماری نسل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں پیدا ہوئی اور ایک اور مشرف کے آمرانہ دور میں جوان ہوئی۔ سویلین حکمرانوں کو ایک کے بعد ایک بدعنوانی کے الزامات پر فارغ کیا جاتا رہا، جبکہ کسی نے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ صرف سویلینز کو ہی کیوں احتساب کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔

یوں ایسی فضاء پیدا ہوئی ہے جس میں فوج کو ہمیشہ مسیحا کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جسے کئی 'غیر سیاسی لوگ' بغیر تنقید کیے بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہمیں اپنی عدم دلچسپی سے باہر آ کر معاشرے کے امور میں مزید ثابت قدمی سے حصہ لینا چاہیے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔

جعفر عباس مرزا

لکھاری ایک شیوننگ الیومنائی ہیں اور ایس او اے ایس میں عالمی سیاست میں مذہب کے کردار پر تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: jafferamirza@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔