خصوصی رپورٹ: بانیانِ پاکستان 1947 سے 1951
روشنی کا موسم
ڈاکٹر سید جعفر احمد
"وہ بہترین زمانہ تھا، وہ بدترین زمانہ تھا، وہ دانائی کا زمانہ تھا، وہ بے وقوفی کا زمانہ تھا، وہ یقین کا زمانہ تھا، وہ بے یقینی کا زمانہ تھا، وہ روشنی کا موسم تھا، وہ اندھیرے کا موسم تھا ۔۔۔ ہم سب براہِ راست جنت میں جا رہے تھے، ہم سب براہِ راست دوسری جانب جا رہے تھے۔"
چارلس ڈکنز نے یہ سطور انقلابِ فرانس کے پس منظر میں لکھی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے مکمل طور پر مختلف منظر نامے، جس میں پاکستان کی تشکیل ہوئی اور اس نے اپنا سفر شروع کیا، یہ سطور اس پر بھی صادق آتی ہیں۔ یہ وہ سفر تھا جو امید اور نومیدی اور یقین و بے یقینی کی متضاد کیفیتوں کے ساتھ شروع ہوا تھا۔
پاکستان دنیا کے نقشے پر اس قومی سوال کا جواب بن کر ابھرا جس پر متحدہ ہندوستان کے فریم ورک میں غور کرنا کم کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بٹوارہ ناگزیر بن چکا تھا۔
بانیانِ پاکستان نے ملک کے بارے میں ایک بہت ہی پرامید اور خوشگوار تصور قائم کیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ سماجی بھلائی اور جدید جمہوری اصولوں پر مبنی ملک ہوگا جس میں وہ تمام خصوصیات ہوں گی جس کی توقع ایک عام مسلمان ایک اسلامی ریاست سے کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی حقیقت بانیانِ پاکستان کے پروان چڑھائے گئے تشخص کے بالکل الٹ ثابت ہوئی۔
پاکستان کی کہانی کا بڑی حد تک تعلق اس کی قیادت سے ہے۔
تاریخ دان جب تاریخی اسٹیج سجاتے ہیں، تو اپنی کہانی میں وہ پہلے کرداروں کا صرف تعارف کرواتے ہیں، جن کی خواہشات اور ان کا سماجی پس منظر و سیاق و سباق بعد میں کھلتا ہے۔ اس لیے سماجی اور سیاسی تاریخ پر کام کرنے والے تاریخ دانوں کو اہم کردار ادا کرنے والی تاریخی شخصیات کو مناسب مقام دینا پڑتا ہے۔
آزادی کے بعد پاکستان کی امیدوں اور نومیدی کا اس کے قائدین، اس کے بانیان سے بھی لینا دینا ہے۔ مگر ان میں سے کس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
ہماری آزادی کو صرف ایک شخص، قائدِ اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لیونارڈ موسلی نے پاکستان کی تخلیق کو 'ایک آدمی کی کامیابی' قرار دیا۔ پاکستان کی تخلیق میں جناح کے کردار کی اس سے بھی زیادہ جامع تشریح اسٹینلے وولپرٹ نے کی تھی "۔۔۔۔ کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بھی کچھ دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ ان میں بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پر سجاتے ہیں۔اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ہیں۔"
مگر، جہاں جناح کا غیر معمولی کردار انہیں ایک منفرد شخصیت بناتا ہے، وہیں یہ ہماری تحریکِ آزادی کی ایک کمزوری بھی عیاں کرتا ہے، جس نے بڑے رہنماؤں کا ایک وسیع حلقہ پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ جناح کے ساتھ تھے، ان میں سے زیادہ تر ان کے سائے کے برابر بھی نہیں تھے۔
یہ کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آئی جب آزادی کے صرف 13 ماہ بعد جناح چل بسے۔ بیورلی نیکولز نے اس خطرے کو کافی پہلے بھانپ لیا تھا: "اگر گاندھی چلے گئے، تو نہرو ہوں گے، یا پھر راج گوپال اچاری، یا پٹیل، یا پھر درجنوں دیگر۔ پر اگر جناح چلے گئے، تو ان کی جگہ کون لے گا؟"
اور واقعی جب جناح کی وفات ہوئی تو ان کی جگہ لینے کے لیے کوئی نہیں تھا۔
لیاقت علی خان پختہ عمر کے تھے اور یقیناً ایک قدآور شخصیت تھے، مگر جناح کی چھوڑی ہوئی جگہ وہ قطعاً نہیں بھر سکتے تھے۔ قائدِ اعظم کے معتمد سپاہی ہونے کے باوجود لیاقت علی خان قائدِ اعظم جتنے بالادست نہیں تھے۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناح کی وفات کے بعد وہ قدرتی طور پر سیاسی منظرنامے پر سامنے آئے۔ اسی طرح پاکستان نے اپنے سفر کا آغاز محدود سیاسی وسائل کے ساتھ کیا۔
بدقسمتی سے تحریکِ آزادی کے دوران مسلم لیگ ایک ایسا پلیٹ فارم رہی جو مسلم سیاسی علیحدگی پسندوں کو آواز فراہم کرتی تھی۔ یہ ایک ایسی چھتری تھی جس کے تلے ہر طرح کے مسلمان جمع ہو سکتے تھے۔ یہ ایک تحریک تو تھی، مگر ایک سیاسی جماعت نہیں۔ اس میں منظم ڈھانچہ موجود نہیں تھا، اور نہ ہی وفادار اور تربیت یافتہ کارکنان۔
آزادی کے فوراً بعد، لیگ کی کونسل میں تجویز پیش کی گئی کہ پارٹی کو تحلیل کر دیا جائے اور اس کے اندر موجود گوناگوں عناصر کو مختلف نظریاتی ترجیحات اور سیاسی پروگرامز کے گرد گھومنے والی زیادہ قدرتی تنظیمیں بنانے کی اجازت دی جائے۔ اس تجویز کو منظور نہیں کیا گیا، اور آنے والے سالوں میں کچھ رہنماؤں کی کوتاہ بینی نے انہیں یہاں تک کہنے پر مجبور کر دیا کہ صرف اور صرف مسلم لیگ کو ہی ملک پر حکومت کرنے کا حق حاصل تھا۔
نامور لیگیوں میں سے کئی صوبائی سیاست سے اوپر نہیں گئے، اور صوبائی اکھاڑوں میں بھی زیادہ تر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے نظر آتے۔ اس طرح کی اندرونی کمزوریوں کے ساتھ مسلم لیگ سول اور ملٹری اداروں کا دباؤ نہیں سہہ سکی، جنہوں نے ریاست چلانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میں لیگ کی قیادت کی ایک بڑی ناکامی اس حقیقت کو نظرانداز کرنا تھا کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل تھا، ان کی مؤثر سیاسی قیادت ملک کی تعمیر میں بہت بڑی مدد کر سکتی تھی۔
یہاں جن رہنماؤں کی بات کی جا رہی ہے، وہ یا تو تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے ساتھ نہیں تھے، اور کچھ کو نئے ملک کے حوالے سے تحفظات بھی تھے، مگر پھر بھی جب نیا ملک بن گیا، تب بھی ان کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں صرف اضافہ ہی ہوا کیوں کہ وہ حقیقی طور پر دھرتی کے بیٹے تھے، چنانچہ ان کے مضبوط سماجی بندھن اور سیاسی گڑھ تھے، اور انہیں ایک بڑی تعداد عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔
کنارے سے لگا دی گئی ان قدآور شخصیات میں خان عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، اور غوث بخش بزنجو شامل تھے۔ ان لوگوں کو ساتھ رکھنا نہ صرف مددگار ثابت ہوتا، بلکہ لیگ کے وعدہ کردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی اہم ثابت ہوتا۔
اگر پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی ریاست بننا تھا، جس کے لیے جناح نے سب سے زیادہ معقول دلائل دیے تھے، تو یہ سیاستدانوں کا کام تھا، جو اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے درکار تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے حامی نہیں تھے، یہ زیادہ اہمیت کی حامل بات نہیں ہے، کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد ریاست نے مذہبی سیاسی جماعتوں، یہاں تک کہ فرقہ وارانہ تنظیموں تک کی حمایت حاصل کرنے میں دیر نہیں کی جنہوں نے تصورِ پاکستان کی مخالفت نہایت شدت اور مضبوط دلائل کے ساتھ کی تھی۔ اگر یہ دوسری طرح ہوا ہوتا، تو پاکستان کے سیاسی میدان میں موجود افراد کی تعداد اور قدر و قیمت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہوتی۔
تقسیمِ ہند کے بعد غفار خان نے واشگاف الفاظ میں نئے ملک سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ ایک موقع پر جناح نے ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کو صوبے کی گورنری کی بھی پیشکش کی، مگر یہ تمام اقدامات آگے نہیں بڑھ سکے۔
جی ایم سید سیاسی طور پر بالکل مختلف تھے، مگر پھر بھی وہ کبھی خود کو جناح کا سپاہی اور جناح کو اپنا جرنیل قرار دے چکے تھے۔ لیگ کے ساتھ ان کے اختلاف صرف تقسیم کے وقت سامنے آئے، اور وہ بھی الیکشن کے لیے تنگ نظر صوبائی سیاست پر تھے۔ انہیں مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا تھا، مگر لیگ نے ایسی قدآور سیاسی شخصیات کو دیوار سے لگا رہنے دیا۔
یہاں تک کہ لیگ کے اپنے اندر جن رہنماؤں نے صوبائی حقوق، شہری آزادیوں یا معاشرتی اصلاحات کے لیے آواز اٹھائی، انہیں رفتہ رفتہ باہر کا دروازہ دکھایا جاتا رہا۔ چنانچہ اپوزیشن کی اولین جماعتوں نے لیگ کے اپنے اندر سے جنم لیا۔ سہروردی، فضل الحق، مولانا بھاشانی، پیر صاحب مانکی شریف، افتخار حسین ممدوٹ، میاں افتخار الدین، اور کئی دیگر کبھی لیگ کا حصہ تھے جہاں ان کی جگہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔
پہلے سے کمزور سیاسی طبقہ جب مزید کمزور ہونا شروع ہوا تو سول ملٹری طاقت کے لیے اپنی برتری اور غلبہ جمانا مزید آسان ہوگیا۔
سول سرونٹس کو کولونیل ریاست چلانے کا تجربہ تھا۔ انہوں نے اپنے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے وہ ریاستی نظام بحال کر لیا جو اپنی خصوصیات میں کولونیل نظام سے بالکل بھی مختلف نہیں تھا۔
فوج کے پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کی آمد کے ساتھ ایسا سول ملٹری اتحاد ابھرا جس نے جلد ہی چند افراد تک محدود حکومت کا روپ دھار لیا۔ آزادی کے ابتدائی دو سال کے اندر ہی ریاست کی پالیسیاں اور نظریات سامنے آنے لگے تھے۔
کولونیل حکمرانوں کے ہاتھوں تقسیم میں ہونے والی بدانتظامی، کئی معاملات کو غیر حل شدہ چھوڑا جانا، اور اہم ترین طور پر جموں اور کشمیر کے مسئلے نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شروع سے ہی مخاصمت کو جنم دیا۔ اکتوبر 1947 میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر جنگ چھڑ گئی۔ 14 ماہ بعد جنگ بندی تو ہوگئی، مگر 70 سال اور تین جنگوں کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 1947 پر ہی منجمد ہیں۔
دلیپ ہیرو نے اس مسئلے پر اپنی کتاب کا عنوان بالکل درست طور پر 'دی لانگسٹ آگسٹ' (طویل ترین اگست) رکھا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات نے ہمارے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل کر دیں جس کا بنیادی فلسفہ دفاعی معیشت ہو۔ ریاست کی ترجیحات انہی چیزوں کو تقویت دینے کے لیے بنائی گئیں جنہیں ریاست خود اپنے لیے قبول کر چکی تھی۔ دوسری جانب، وہ چیزیں جو سماجی بھلائی اور جمہوری اصولوں پر مبنی ایک جدید جمہوری ریاست کے لیے ضروری ہوتی ہیں، وہ غیر اہم بن گئیں۔
جس مشکل صورتحال میں پاکستان نے آزادی کے بعد خود کو پایا، اس نے بیوروکریسی کو معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع فراہم کیا۔ کیتھ کیلارڈ لکھتے ہیں کہ "تقسیم اور اس کے بعد کے حالات کا تقاضہ تھا کہ نئی ریاست پر حکومتی کنٹرول کے قیام کے لیے مضبوط مرکزی اقدامات کیے جائیں۔"
ہندوستان کے برخلاف پاکستان الگ ہونے والی ریاست تھا، جبکہ ہندوستان (برطانوی راج کی) جانشین ریاست تھا جسے تقسیم سے پہلے رائج پورا ریاستی نظام وراثت میں ملا تھا۔
چنانچہ پہلے سے یہ حدود واضح تھیں کہ ریاستی معاملات میں حقیقی قوت کس کے پاس ہوگی اور فیصلہ لینے کا اختیار کس کے پاس ہوگا، اور اس منفرد ریاستی نظام کو سیاسی جمہوری رنگ دینے میں کس کا کردار صرف ثانوی نوعیت کا ہوگا۔
یہ اختلاف ابتداء سے ہی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیاقت علی خان اس کے پہلے شکار بنے۔ انہیں امریکا بھیجا گیا تاکہ وہ، جیسا کہ انہوں نے امریکی سرزمین پر اپنا پہلا قدم رکھنے پر کہا، "اپنے ملک اور امریکا کے درمیان ایک روحانی پل" کی تعمیر کر سکیں۔
1951 کے اختتام تک انہوں نے امریکا کو خوش رکھنے کی اپنی ابتدائی پالیسی سے منحرف پالیسی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اسی سال اکتوبر میں ان کے قتل نے امریکی حمایت کے حصول کی زبردست کوششوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر دیں۔
دو سالوں کے اندر اندر ہی لیاقت علی خان کو تنہا کر دیا گیا تھا، یہ راولپنڈی سازش کیس سے واضح ہے۔
جانے والے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے نئے کمانڈر ان چیف ایوب خان کو فوج میں موجود نوجوان ترکوں کے ایک گروہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا نے بھی کراچی میں برطانوی ڈیفینس اتاشی سے نوجوان افسران میں موجود قوم پرست جذبات کے بارے میں ایک تبصرہ کیا تھا۔
وزیرِ اعظم کو لاعلم رکھا گیا اور انہیں پولیس کے سویلین ذریعے سے اس تبصرے کے بارے میں معلوم ہوا۔ ایوب اور مرزا نے وزیرِ اعظم کو اندھیرے میں رکھا۔ سازش در سازش اپنی کہانی خود بیان کرتی ہے۔
تاریخ دانوں نے رفتہ رفتہ پاکستان کے اپنے قیام سے ہی مطلق العنانیت کی جانب جھکاؤ کو محسوس کر لیا تھا، اور تب سے اب تک اس بارے میں بہت سی سیاسی تحریریں لکھیں گئی ہیں۔ مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنہوں نے اسے سب سے پہلے محسوس کیا، وہی مطلق العنانیت کے نتائج سہنے والوں میں سب سے اول تھے۔
یہ ہمارا مزدور طبقہ، ہمارا دانشور طبقہ، ہمارے مصنفین اور ہمارے شاعر تھے۔
اپنے وقتوں کی مشکلات کا احاطہ کرنے والی منٹو اور قاسمی کی تحریروں اور ن م راشد اور فیض احمد فیض کی شاعری کو کون بھول سکتا ہے۔
کیا انہیں بھی بانیانِ پاکستان میں شمار نہیں کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر سید جعفر احمد جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔
**حبیب بینک لمیٹڈ آزادی سے ہی اس قوم کا ایک اہم حصہ رہا ہے، اور لاکھوں پاکستانیوں کے خوابوں کو ممکن بنا رہا ہے۔ حبیب بینک خواب دیکھنے والوں کو سلام پیش کرتا ہے، اور ملک کی 70 ویں سالگرہ آپ کے نام کرتا ہے۔ جہاں خواب، وہاں ایچ بی ایل۔**
یہ رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی۔ اس خصوصی رپورٹ سے مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے بٹنوں پر کلک کریں۔
***
آزادی کا حصول
ڈان، 15 اگست، 1947 (خبر)
جمعرات (14 اگست) کے روز ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے نئی اور آزاد ریاست کے قیام کے موقع پر پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران زبردست خوشی اور جوش و ولولے کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ سات کروڑ شہریوں کے ساتھ یہ نئی ریاست دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہوگی۔ یہ تاریخی اجلاس سندھ اسمبلی ہال کراچی میں صبح 9 بجے، یعنی نئی ریاست کے قیام میں آنے سے 15 گھنٹے قبل ہوا۔
شہنشاہِ معظم نے "اس عظیم موقع پر نیک تمناؤں" کا اظہار کیا۔ وائسرائے نے اپنی نیک تمناؤں کے اظہار کے بعد کہا کہ ان کے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے درمیان موجود باہمی فہم و اعتماد مستقبل میں اچھے تعلقات کا شگون ہیں۔
انہوں نے کہا، "یہاں میں مسٹر جناح کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ میری نیک خواہشات آپ کے نئے گورنر جنرل کے ساتھ ہیں۔"
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے شہنشاہِ معظم کے تہنیتی پیغام پر دستور ساز اسمبلی کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ وائسرائے کی جانب سے شہنشاہ اکبر کی برداشت اور رواداری کا حوالہ دینے پر قائدِ اعظم نے کہا کہ یہ کوئی حالیہ روایت نہیں، بلکہ "یہ تیرہ صدی قبل ہمارے نبی ﷺ کی روایت ہے جنہوں نے نہ صرف الفاظ، بلکہ اپنے اقدامات سے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ان پر فتح پانے کے باوجود اچھا سلوک کیا۔"
***
ریڈکلف کمیشن ایوارڈ کا اعلان
ڈان، 18 اگست، 1947، (اداریہ)
جغرافیائی قتل
باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ پاکستان کے لیے انتہائی غیر متوقع جھٹکا ہے۔ یہ صرف ایک شخص، سر سیرل ریڈکلف، کے ایوارڈ کی نمائندگی کرتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تنہا فرد کے کی رائے پر بھروسہ کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو پنجاب، بنگال، اور ضلع سلہٹ میں بڑے علاقوں سے محروم کر دیا گیا ہے جو ناقابلِ انتقال طور پر اس کا حصہ تھے۔
سر سیرل ریڈکلف نے جو تین رپورٹس جمع کروائی ہیں، انہیں 'جوڈیشل ایوارڈ' کہنا انصاف کے نام کی توہین ہے۔ ایک جج اپنے سامنے پیش کیے گئے ثبوتوں کا تجزیہ کرتا ہے اور اپنے فیصلے کے بارے میں دلائل دیتا ہے۔ سر سیرل ریڈکلف نے اس طریقہءِ کار کو مدِنظر رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ اور جہاں جہاں انہوں نے اپنے کچھ فیصلوں کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں وہ خود تضادات میں الجھ گئے ہیں، یعنی بنگال میں ایک اصول اپنانا اور پنجاب میں دوسرا۔
ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت نے پاکستان کے اس جغرافیائی قتل کو قبول کر بھی لیا، تب بھی عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ ہم اس عید کے دن پر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خوشیوں کو ایک طرف رکھیں، اور عہد کریں کہ وہ اپنے اپنے انداز میں اور اپنے اپنے شعبہ جات میں پاکستان کے علاقوں کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے۔
***
مہاجرین کی آمد
ڈان، اکتوبر 7، 1947 (خبر)
گورنر جنرل کے ڈکوٹا طیارے میں صحافیوں کے گروہ نے مشرقی پنجاب پر اور مغربی پنجاب کے ایک حصے پر پرواز کرتے ہوئے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب جانے والے مسلم مہاجرین کی آٹھ میل طویل قطار، مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب جانے والے غیر مسلم مہاجرین کی چالیس میل طویل قطار، اور سیلابوں سے سڑکوں اور ریل کے نظام کو پہنچنے والے نقصان کے مناظر دیکھے۔ گروہ میں شامل ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے ایک نمائندے لکھتے ہیں:
"[لدھیانہ میں] ہم نے مہاجرین کے دو بڑے گروہ دیکھے جو کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ ہم جالندھر گئے جہاں ہم نے پہلی ٹرین دیکھی، مکمل طور پر بھری ہوئی، جس کی چھتوں پر بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، جیسا کہ عام طور پر مہاجرین کی ٹرینیں ہوتی ہیں۔ حالیہ سیلابوں نے ریل کی نقل و حرکت کو درہم برہم کر دیا ہے اور سڑکوں کے کچھ حصے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہم نے کرتارپور میں مزید مہاجر کیمپ دیکھے۔ بعد میں ہم نے غیر مسلم مہاجرین کا 40 میل طویل قافلہ دیکھا جو بلوکی ہیڈ پار کر رہا تھا۔ یہاں صرف ایک پل ہے لہٰذا دریا پار کرنا ایک سست مرحلہ ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ ایسے تھے جو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے، سوائے اس سامان کے جسے وہ اپنی پشت پر لاد سکتے تھے — بے تابی سے اس اکلوتے پل کے پار دیکھتے ہوئے، جسے پار کرنے سے ان کی زندگی کا ایک خوفناک باب اپنے اختتام کو پہنچتا۔"
***
مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق پر فوجوں کی پیش قدمی
ڈان، اکتوبر 29، 1947 (اداریہ)
کشمیر میں تیزی سے بدلتی صورتحال اب اپنے حتمی نتیجے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پونچھ میں پلندری سے یہ سنسنی خیز اعلان آیا ہے کہ آزاد کشمیر کی عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے، اور یہ کہ اس کی افواج نے تمام سیکٹرز میں پیش قدمی کرتے ہوئے مخالف فوج کی پوزیشنز تباہ کر کے 'ڈوگرہ افواج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔'
عبوری حکومت کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ پرعزم وعدہ کیا گیا ہے کہ "مجبوروں کی آزادی اب قریب آچکی ہے۔" یہ دعوے بے بنیاد اس لیے نہیں ہیں کیوں کہ کشمیر کے ایک نمبر ڈوگرہ نہ صرف بھاگ کھڑے ہوئے، بلکہ وہ بھاگے بھاگے نئی دہلی تک جا پہنچے، اور برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پیروں میں گر گئے۔ انہوں نے "فوجی امداد" کی درخواست کی جسے قبول کرتے ہوئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کی عوامی جدوجہد کو دبانے کے لیے فوجیوں سے بھرے کئی طیارے کشمیر بھجوا دیے ہیں۔
ظلم سے نفرت کرنے والوں اور آزادی سے محبت کرنے والوں کے دلوں سے دعائیں آسمانوں تک جائیں گی کہ خدا تعالیٰ کشمیر کے لوگوں کو آزادی عطا کرے، جو بالآخر اپنی نیند سے جاگے ہیں اور طویل عرصے سے جبر و استبداد کے شکار اپنے ملک کو استحصالی اور جابر قوتوں کے ہاتھوں سے چھڑانے کے لیے برسرِپیکار ہو گئے ہیں۔ آزاد کشمیر زندہ باد۔
***
تقسیم اور خواتین کا اغوا
ڈان، دسمبر 10، 1947 (اداریہ)
پاکستان کے وزیرِ صحت و مہاجرین، مسٹر غضنفر علی خان نے اغواء ہونے والی خواتین اور بچوں کی بازیابی اور بحالی کے لیے ایک مشترکہ تنظیم بنانے کی پرزور اپیل کی ہے۔ مسلح جتھوں کا اشتعال میں آ کر ایک دوسرے کو قتل کرنا پھر بھی سمجھ آتا ہے، مگر جب مرد، جو صرف جسمانی طور پر مردانہ خصوصیات رکھتے ہوں، منظم انداز میں معصوم خواتین کو غیر انسانی بربریت کا نشانہ بنائیں اور ان سے ناقابلِ بیان حد تک شرمناک سلوک کریں صرف اس لیے کہ وہ کسی اور برادری سے تعلق رکھتی ہیں، اسے دیکھ کر جانور بھی شرما جائیں۔ حالیہ مہینوں میں انسانی بربریت اور ظلم کا ہمیں وہ چہرہ دیکھنے کو ملا ہے کہ لوگوں کا اب اور کوئی ظلم بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری ریاست کو ہماری خواتین کی واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، تو ہماری یہ آواز ہر پاکستانی مسلمان کی آواز ہے، کیوں کہ ہماری خواتین کی آبرو ہماری ریاست کی آبرو ہے۔
***
مہاتما گاندھی کا قتل
ڈان، 31 جنوری، 1948 (اداریہ)
آخرکار انہوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا ہے۔ دس دن پہلے انہوں نے ہینڈ گرینیڈ سے کوشش کی تھی، مگر ناکام رہے تھے۔ کل [31 جنوری] کو انہوں نے امکان پر کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ یوں دنیا کے عظیم ترین انسانوں میں سے ایک، اپنے عزم و یقین کی راہ میں شہید ہوگئے۔ یوں جدید زمانے کے عظیم ترین ہندو کی زندگی کا اختتام ایک ہندو کے ریوالور سے ہوا۔
گاندھی اپنے ملک کی خاطر مارے گئے، جسے وہ آزادی کے بعد قدیم زمانے کی بربریت کے چنگل میں واپس پھنسنے سے بچانا چاہتے تھے۔ گاندھی ہندوستان کی اس مسلم اقلیت کے لیے بھی مارے گئے جن کے خلاف وہ بربریت پہلے سے کہیں تیزی سے اپنائی جا رہی تھی۔ وہ یہ جان کر افسردہ تھے کہ ساری زندگی عدم تشدد کے پرچار کے باوجود ان کے ہندوستان میں پرتشدد قوتیں بالادست ہو رہی تھیں۔ کئی لوگ جو بظاہر ان کے اور زبانی طور پر ان کی تعلیمات کے معترف تھے، خود ان شیطانی قوتوں کے کھلا گھومنے کے لیے ذمہ دار تھے۔ مہاتما گاندھی اپنی ذات میں غرق ہوگئے اور فیصلہ کر لیا۔
1942 میں انہوں نے اپنے پیروکاروں کو 'کرو یا مرو' کا نعرہ دیا تھا۔ 1948 میں انہوں نے بربادی کے آگے بند باندھنے کی خاطر یہی نعرہ خود اپنا لیا۔ دنیا آج افسردگی سے یہ دیکھ رہی ہے کہ گاندھی، جنہیں کتنے ہی ہندو بزرگ اور دیوتا کی حد تک مانتے ہیں، کی موت بھی اس عفریت کے سامنے غیر اہم ثابت ہوئی جسے دیگر نے پروان چڑھایا تھا۔ گاندھی 'کر' نہیں سکتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی نچھاور کر دی۔ ان کے اپنے لفظوں میں انہوں نے 'رفیع الشان آزادی' حاصل کر لی ہے۔
مگر تاریخ میں رقم ہے کہ کئی عظیم شخصیات نے اپنی موت سے وہ کچھ حاصل کیا جو وہ زندہ رہتے ہوئے حاصل نہیں کر سکے تھے۔ دنیا بھر میں اس بری خبر سے ششدر رہ جانے والے لوگوں کے ذہن یہ سوال کریں گے: کیا جس عفریت کو گاندھی اپنی زندگی میں قابو نہ کر سکے، وہ ان کی موت سے قابو میں آ جائے گا؟ کیا وہ جنونی جو تشدد کی بھوک کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے، اپنی اس حرکت کے صدمے سے واپس ہوش میں آ جائیں گے؟
نہ صرف ہندوستان کی مسلم اقلیت، جس کے لیے مہاتما گاندھی بے خوف ہو کر اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے، بلکہ پاکستان کے مسلمان بھی اس عظیم زندگی کے اس بھیانک انجام پر افسردہ ہیں۔ اگر امن و آشتی کے قیام کے لیے مہاتما کی یہ عظیم قربانی ہندوستان کے ہندوؤں کا ضمیر جھنجھوڑ دیتی ہے تو سرحد کے اِس پار موجود مسلمان بھی مکمل خلوص کے ساتھ اس کا جواب دینے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔
***
ڈھاکہ یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب
ڈان، 25 مارچ، 1948 (خبر)
ڈھاکہ یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی سرکاری زبان کے مسئلے پر ایک بار پھر مؤقف واضح کیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک صوبائی زبانوں کی بات ہے تو عوام کوئی بھی زبان منتخب کر سکتے ہیں۔ مگر رابطے کی زبان پورے ملک کے لیے صرف ایک ہو سکتی ہے۔ وہ زبان اردو ہونی چاہیے، اور کوئی زبان نہیں ہو سکتی۔
حال ہی میں کچھ حلقوں کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے، کہ بنگالی کو اردو کے ساتھ ساتھ سرکاری زبان ہونا چاہیے، کا حوالہ دیتے ہوئے قائدِ اعظم نے کہا کہ صرف اردو کو سرکاری زبان کہا جا سکتا ہے۔ اردو وہ زبان ہے جو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے، دیگر اسلامی ممالک کی زبان سے قریب تر ہے، اور جس میں اسلامی تہذیب اور ثقافت کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں زیادہ جھلکتی ہے۔
قائدِ اعظم نے طلباء پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو درپیش آزمائشوں اور مشکلات کو یاد رکھیں۔ انہوں نے طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ وطن دشمنوں سے خبردار رہیں اور ان لوگوں سے اپنی صفوں کی حفاظت کریں جو صرف ان کا استحصال کرنا چاہتے ہیں، اور ان لوگوں کو بھی پہچانیں جو بے لوث ہو کر ریاست کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ مسلم لیگ پارٹی کے ہاتھ مضبوط کریں، اور ان لوگوں کو بھی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیں جو یا تو اس مقصد میں مددگار ثابت نہیں ہو رہے، یا پھر اس کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
جب قائدِ اعظم نے کہا کہ اردو کے علاوہ کوئی زبان سرکاری زبان نہیں ہو سکتی، تو ایک ہندو نوجوان کی زیرِ قیادت طلباء کے ایک گروہ نے "نہیں، نہیں، نہیں" کے نعرے لگائے۔ جب قائدِ اعظم ہال سے نکل رہے تھے، تو ہندو طلباء نے ایک بار پھر بنگالی نعرے لگاتے ہوئے ایک اور مظاہرہ کیا۔
کرزن ہال، جہاں کانووکیشن منعقد ہوا تھا، مکمل طور پر بھرا ہوا تھا، اور مشرقی بنگال کے وزراء کے علاوہ تمام ارکانِ اسمبلی اور نامور شہری موجود تھے۔ یہ موقع اس لیے بھی منفرد تھا کیوں کہ کلکتہ کی ایک فرم جو کانووکیشن کے لیے طلباء کے گاؤن فراہم کرتی تھی، نے اس دفعہ ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
یونیورسٹی حکام نے ان سے 20 مارچ کو کلکتہ یونیورسٹی کے کانووکیشن کے فوراً بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے خرچ پر بذریعہ ہوائی جہاز گاؤن بھیجنے کی درخواست کی، مگر فرم نے پھر بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ طلباء نے گاؤنز کے بغیر صرف ٹوپیاں پہن کر کانووکیشن میں شرکت کی۔
***
مرکزی بینک کا افتتاح
ڈان، 2 جولائی، 1948 (اداریہ)
1 جولائی اس نوزائیدہ ریاست کی تاریخ میں ایک یادگار دن تھا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ اس اہم اقدام سے ملک کی مالی خود مختاری ابھر کر سامنے آئی ہے، اور ایک ایسے وقت میں جب دوسروں پر انحصار ایک روشن خیال پالیسی سے عدم مطابقت رکھتا، تب اس اقدام سے مرکزی بینکاری اور کرنسی سے متعلق اہم امور میں خود انحصاری یقینی ہو پائے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس ملک کا مرکزی بینک ہوگا، اور اس طرح یہ وہ کام سرانجام دے گا جو برطانیہ کے لیے بینک آف انگلینڈ، امریکا کے لیے فیڈرل ریزرو بینک، اور ہندوستان کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا سرانجام دیتے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک، مسٹر زاہد حسین نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی کہ بینک کرنسی نوٹس کے اجراء، اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے حکومتی قرضوں کے معاملات، پاکستان کی کرنسی کے بین الاقوامی استحکام، اور حکومتِ پاکستان کے لیے زرِمبادلہ کی مینیجمنٹ کے فرائض سرانجام دے گا۔ اسٹیٹ بینک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا بینک ہوگا، یہ وہ بینک ہوگا جس میں دیگر بینک اپنے اثاثے جمع کروائیں گے۔
اپنی افتتاحی تقریر میں قائدِ اعظم نے کہا، "مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابلِ حل مسائل پیدا کر دیے ہیں، اور ہم میں سے کئی کو لگتا ہے کہ دنیا جس تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے، اس سے اب صرف کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ یہ نظام انسان اور انسان کے درمیان انصاف کرنے، اور بین الاقوامی میدان سے عدم مساوات کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مغربی معاشی نظریات اور عملیات اپنانا ہمیں خوش و خرم آبادی کی تشکیل میں مدد نہیں دے گا۔ ہمیں اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے طریقے سے کرنا ہوگا، اور اسلام کے تصورِ مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔"
***
بابائے قوم انتقال کر گئے
ڈان، 12 ستمبر، 1948 (اداریہ)
پاکستان زندہ باد
جس خدا نے ہمیں قائدِ اعظم جیسی شخصیت عطا کی تھی، اس کی رضا یہی ہے کہ وہ انہیں ہم سے واپس لے لے۔ بابائے قوم وفات پا گئے ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے جیئے، انہوں نے ہمیں پاکستان دیا، اور ان کی وفات بھی پاکستان کے لیے ہوئی۔ بابائے قوم کی وفات ہو چکی ہے مگر قوم زندہ ہے۔ بانیءِ پاکستان کی وفات ہو چکی ہے، مگر پاکستان باقی ہے۔
ان کا کام مکمل ہو چکا تھا، وہ کام جس کا سہرا تاریخ میں بہت کم ہی لوگوں کے سروں پر ہے۔ دس سال سے بھی کم عرصے میں انہوں نے ایک غیر متحد قوم کو متحد کیا، ان کی منتشر صفوں کو منظم کیا، انہیں ایک عظیم قوم میں تبدیل کیا، اور ان کے سامنے ایک خواب کو ایک تصور بنا کر رکھا، اور پھر اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ قوم ان سے محبت کرتی تھی اور ان کی مداح تھی۔ جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ اب ہمارے درمیاں نہیں رہے، تو وہ اس بوجھ تلے دب جائیں گے جسے انسان غم کہتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک بے نام احساس ہے۔ مگر ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ غم کو ایک طرف رکھیں اور افسردگی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔ ہمارے پیارے قائد ہمیں غمگین کبھی نہ دیکھنا چاہتے۔
پاکستان ان کی سب سے بڑی محبت تھا۔ ان کے پہلے سے کمزور جسم کو مزید کمزور کر دینے والی بیماری کے باوجود انہوں نے اپنی محبت پاکستان کے لیے کام کیا۔ پاکستان کے عوام کو غم کی اس غیر معمولی اور ناقابلِ بیان تکلیف میں بھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان سب سے پہلے ہے اور پاکستان ہر شخص سے اس کے فرائض کی انجام دہی اور اپنی جگہوں پر ڈٹے رہنے کی توقع کرتا ہے، پھر چاہے اس پر جس بھی سانحے کا پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
ہمارے قائد یہ بالکل بھی نہ چاہتے کہ ہم میں سے ایک بھی شخص کسی بھی غم، چاہے وہ ان کی موت کا ہی کیوں نہ ہو، سے اس قدر جھک جائے کہ پاکستان کے مفادات، پاکستان کی بھلائی، اور پاکستان کا تحفظ اور پاکستان کی سلامتی ذرا سے بھی سمجھوتے کا شکار ہو جائے۔
ہر مرد اور عورت یہ یاد رکھے، وہ ہر شخص جس پر ریاستی ذمہ داری ہے یہ یاد رکھے، پاکستان کا ہر شہری یہ یاد رکھے۔
یہ خدا کی رضا تھی کہ وہ قائدِ اعظم کو ہم سے ایسے وقت میں واپس لے لے جب ہمارا ملک اور ہمارے لوگ سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔ اگر قائدِ اعظم ہمارے درمیان ہوتے تو ہم خدا کی مہربانی سے ان تمام خطرات سے نمٹ لیتے، اب قائدِ اعظم کے بغیر ہمیں خدا کی مہربانی سے ان تمام خطرات سے نمٹنا ہوگا اور ہم نمٹیں گے۔
قائدِ اعظم وفات پا چکے ہیں مگر ہم بے رہنما نہیں ہیں۔ ہمارے لیے فیض کا یہ سرچشمہ وفات پا گیا ہے مگر ان کی روح سے ہمیں فیض حاصل ہوتا رہے گا۔ آئیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ قائدِ اعظم کی غیر موجودگی قومی سرگرمی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی صورت میں ہمیں پیچھے نہ دھکیل دے۔
کئی ماہ سے ہمارے وزیرِ اعظم، ان کی کابینہ، اور ذہین اور مخلص سرکاری افسران کا وہ گروہ جس پر قومی امور کی بھاری اور اہم ذمہ داری عائد ہے، قائدِ اعظم کو ان کے بسترِ علالت پر چند ایک بار کے علاوہ کوئی بھی تکلیف دیے بغیر ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہو رہے ہیں۔ یہ رہنما اور پاکستان کے یہ ذہین خدمت گزار اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔
قوم یہ یقین رکھے کہ ہمارے عظیم رہنما کے انتقال کے باوجود ہمارے قومی امور اس قدر مشکلات کا شکار نہیں ہوں گے کہ مایوسی پھیل جائے۔ قائدِ اعظم کے تربیت کردہ لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ قائدِ اعظم کس صورتحال میں کیا چاہتے اور کس طرح۔ وہ یہ کر دکھائیں گے۔ جناح کی دانائی اور رہنمائی اور ان کا عزم اب ہمارے درمیان نہیں ہو گا، مگر وہ یہ کر دکھائیں گے، کوئی بھی دوست اور دشمن اس حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔
***
سقوطِ ریاست حیدرآباد
ڈان، 18 ستمبر، 1948 (اداریہ)
ریاست حیدرآباد حملہ آور کی برتر قوت کے زیر نگیں ہو چکی ہے۔ نظام شکست تسلیم کرنے اور اپنے سپاہیوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہندوستان کی پرتشدد قوت نے اپنا بے رحم مقصد حاصل کر لیا ہے۔ حملے کا وقت، اس کی شدت، اور اس کی ہمہ جہتی سے واضح تھا کہ حملہ آور اقوامِ متحدہ کے سامنے کوئی چارہ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ کامیاب ہو چکا ہے۔
حملہ آور نے نظام سے شکست خنجر کے زور پر تسلیم کروائی ہے۔ اب ہندوستان مطالبہ کرے گا کہ سلامتی کونسل خنجر کی اسی دلیل کو قبول کرے۔ پیر (20 ستمبر) کو سلامتی کونسل کیا کرے گی؟ کیا کونسل کے 11 ارکان، بشمول چینی نمائندے، کے کوئی ایک بھی شخص ہے جو نظام کے اقدام کو برضا و رغبت اٹھایا گیا قدم قرار دے؟ جب ایک طاقتور اور بے رحم حملہ آور اپنے کمزور شکار کو گلے سے پکڑ لے، تو اس وقت شکار جو کچھ بھی کہے یا کرے، وہ صرف احکامات کی بجاآوری کے زمرے میں آتا ہے۔
نظام بھی اب اسی صورتحال میں ہیں۔ ان سے شکست شدید تر طاقت کے ذریعے تسلیم کروائی گئی ہے۔ ان کے اعلانات، ان کے احکامات اور ان کے فیصلے، اب ان کے اپنے نہیں بلکہ ہندوستانی حکومت کی ایماء پر ہیں۔
ہٹلر نے چیکوسلوواکیہ، پولینڈ اور فرانس پر حملہ کیا۔ نازیوں کے زیرِ تسلط ملکوں مین جو حکومتیں وجود میں آئیں، وہ آزاد حکومتیں نہیں تھیں۔ اتحادیوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور چیکوسلوواکیہ، پولینڈ اور وشے فرانس (آزاد فرانس) کی حکومتوں کو اپنے عوام کی خواہشات کی نمائندگی کرنے والی آزاد حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
ہٹلر کے روحانی جانشین مسٹر نہرو نے اب دنیا کو ایسی ہی ایک اور مثال دی ہے۔ نظام، اور جو حکومت وہ ہندوستان کے احکامات پر تشکیل دیں گے، وہ آزاد حکومت نہیں ہوگی اور نہ ہی حیدرآبادیوں کی خواہشات کی نمائندہ ہوگی۔ اگر سلامتی کونسل، جس میں اکثریت جنگِ عظیم دوئم کے اتحادیوں کی ہے، اس واضح حقیقت کو نظرانداز کر دیتی ہے، تو وہ بددیانتی کی مرتکب ہوگی۔
***
رائے شماری کی تجویز پر اتفاق
ڈان، 2 جنوری، 1949 (خبر)
کل (1 جنوری) کراچی اور نئی دہلی سے ایک ساتھ جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ہے 1 جنوری 1949 کو آدھی رات سے ایک منٹ قبل جنگ بندی عمل میں آ جائے گی۔
پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں یہ اعلان کرتے ہوئے پرامید ہیں کہ "یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کے لیے دیرپا امن اور ہندوستان اور پاکستان کے عوام کے لیے قریبی دوستی کا احساس لے کر آئے گا۔"
"جنگ بندی" کے معاہدے کے بعد دونوں حکومتوں نے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان (یو این سی آئی پی) کے ڈاکٹر الفریڈو لوزانو کی (سلامتی کونسل کی 23 اپریل 1948 اور یو این سی آئی پی کی 13 اگست 1948 کی قراردادوں کی روشنی میں) "مخصوص شرائط پوری ہونے پر جموں و کشمیر میں رائے شماری کے انعقاد کے حوالے سے مخصوص اصولوں سے متعلق" تجاویز قبول کر لیں۔
ڈاکٹر لوزانو، جو نیویارک لوٹ چکے ہیں، یو این سی آئی پی کو رپورٹ کریں گے، جو 8 جنوری کو دوبارہ بیٹھے گا، اور ایک اعلان جلد متوقع ہے۔ اس باقاعدہ اعلان کا انتظار کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے اپنے اپنے کمانڈر ان چیفس کو جنگ بندی کے غیر رسمی معاہدوں کا اختیار دے دیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ دفاع کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ: "حال ہی میں ڈاکٹر الفریڈو لوزانو نے مونز سیمپر اور ڈاکٹر ایرک کولبین کے ہمراہ کچھ تجاویز پر غور کرنے کے لیے نئی دہلی اور کراچی کا دورہ کیا۔ یہ تجاویز جموں و کشمیر میں چند شرائط پوری ہونے پر رائے شماری کے انعقاد کے حوالے سے اصولوں سے متعلق تھیں۔ کمیشن کو محسوس ہوا کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے ان تجاویز کو تسلیم کرنے یہ کمیشن کی 13 اگست 1948 کی قرارداد کے حصہءِ اول اور دوئم پر بلاتاخیر عملدرآمد ہو سکے گا۔ ڈاکٹر لوزانو کا مشن کامیاب ہوا اور وہ 26 دسمبر 1948 کو نیویارک لوٹ گئے ہیں، جہاں وہ کمیشن کو رپورٹ کریں گے، جو 3 جنوری 1949 کو دوبارہ بیٹھے گا۔ کمیشن کا اعلان بھی کچھ عرصے میں متوقع ہے۔"
***
دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پیش
ڈان، 3 مارچ، 1949 (اداریہ)
قراردادِ مقاصد، جسے مسلم لیگ پارٹی کے رہنما مسٹر لیاقت علی خان 7 مارچ کو دستور ساز اسمبلی میں لانے والے ہیں، ایک خوش آئند اقدام ہے کہ پاکستانی آئین کی بنیادیں صحیح انداز میں رکھی جا رہی ہیں۔ قرارداد نہ صرف پاکستان کے قیام کے تصور سے ہم آہنگ ہے، بلکہ اس بات کا عملی مظاہرہ ہے کہ یہ تصورات کس طرح برداشت اور مساوی سلوک پر مبنی ہیں، اور جدید ترقی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔
قراردار کا سرنامہ خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے جو کہ اسلام کا بنیادی تصور ہے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست کو حاصل اختیارات اسے خدا نے عوام کے ذریعے دیے ہیں۔ یہ واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا مطلب ملائیت نہیں ہے کیوں کہ ریاست کو اختیار عوام کے ذریعے حاصل ہے، کسی مذہبی شخصیت یا کسی مخصوص حلقے کے حکم کے ذریعے نہیں۔ یہی بات ایک اور شق میں مزید واضح کی گئی ہے جہاں یہ کہا گیا ہے کہ اس اختیار کا استعمال عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے کیا جا سکے گا۔ یہ کلیہ نہ صرف جدید جمہوریت کی بنیاد ہے بلکہ اسلامی سیاست کی روح سے بھی ہم آہنگ ہے۔
جدید جمہوری طریقوں کی سب سے نمایاں خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اصولوں سے عاری اکثریت ان اخلاقی اصولوں کو شاید نظرانداز کردے جنہیں انسان و انسان کے درمیان معاملات میں مدِنظر رکھنا چاہیے، اور ہوسکتا ہے کہ یہ اپنی طاقت کو آبادی کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی استعمال کرے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اکثریت کے استبداد سے بڑا استبداد کوئی نہیں ہو سکتا۔
اکثریت کس قدر ظالم ہو سکتی ہے، اس کی انتہاؤں کو سمجھنے کے لیے ہمیں نہ ہی جغرافیائی طور پر دور اور نہ ہی وقت میں پیچھے جانے کی ضرورت ہے۔ پر اگر ریاست اعلیٰ اخلاقی اقدار پر قائم ہو تو یہ خطرہ ٹل جاتا ہے کیوں کہ جب تک ان اصولوں کی پاسداری کی جائے تب تک استبداد حکومت کے اندر اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔
اس لیے اسلام اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ اختیار ایک مقدس ذمہ داری ہے اور اس کا استعمال خدا کی بتائی گئی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ یہ حدود روحانی اور اخلاقی ہیں، اور اختیار کے استعمال کو ایک عبادت قرار دیتی ہیں جس میں خود غرضی، طاقت اور دولت کے خیالات کا داخلہ بند ہونا چاہیے۔ اور اگر ایسے بدکردار لوگ حکمران بن بھی جائیں جو ان حدود سے متجاوز ہوں، تو عوام کے پاس نہ صرف انہیں باہر نکال دینے کا بلکہ انہیں سزا دینے کا اختیار بھی موجود ہے۔ وسیع تناظر میں تمام دنیاوی طاقت محدود ہے، اور محدود تناظر میں اسلام ان تمام اختیارات کی حدود متعین کرتا ہے جن کی پاسداری قراردار تیار کرنے والے چاہتے ہیں۔ ان میں سے چند حدود واضح طور پر قرارداد میں بیان کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر: "اسلام کے سکھائے گئے جمہوریت، آزادی، برابری، برداشت اور سماجی انصاف کے اصولوں" کی پاسداری کرنی ہوگی۔
کون نہیں جانتا کہ اسلام رنگ، نسل اور پیدائش کی بناء پر تعصبات سے مکمل طور پر پاک ہے۔ یہ انسان کی عظمت کو مکمل طور پر تسلیم کرتا ہے اور سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کو ختم کرنے کے طریقے بتاتا ہے؛ یہ اقلیتوں کی اپنے مذاہب پر عمل کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے اور ایسے معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے جہاں تمام انسان خوش و خرم، برابر، اور کسی بھی معاشی فکر اور خوف سے آزاد ہوں گے۔ کسی بھی شخص پر اس کے عقائد یا آراء کی بناء پر عرصہءِ حیات تنگ نہیں کیا جائے گا، اور قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شہری کو 'حقیقت' کے بارے میں اپنے تصورات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوگی۔
اقلیتیں نہ صرف آزاد ہوں گی، بلکہ ریاست کی ذمہداری ہوگی کہ انہیں اور ان کے جائز مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ ایک آزاد معاشرے کی بنیاد ہے اور قرارداد مکمل طور پر آئینہ دار ہے کہ اسلام دیگر مکاتبِ فکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ لبرل تصورات کا حامل ہے۔
قرارداد اسلام کی روح کے عین مطابق ریاست پر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو "اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگیاں قرآن اور سنت کی تعلیمات اور اصولوں کے مطابق گزارنے میں" سہولت فراہم کرے۔ کوئی غیر مسلم پاکستان کی مسلم اکثریت کی اپنے مذہب کے مطابق زندگیاں گزارنے کی خواہش پر اعتراض نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے دیگر شہریوں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کی آزادی اور حقوق میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ قرارداد میں واضح الفاظ میں اس آزادی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اسلام کے اقلیتی فرقوں کے اذہان میں بھی اس حوالے سے غلط فہمیاں پیدا نہیں ہونی چاہیئں کیوں کہ قرارداد تیار کرنے والوں کی نیت یہ ہے کہ پاکستان عقائد و اعمال کے متنازع مسائل میں الجھے بغیر ایک حقیقی اسلامی معاشرہ بن جائے؛ اس لیے صرف قرآن و سنت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ تمام مسلمان، چاہے ان کے عقائد جو بھی ہوں، متفق ہوں گے کہ قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمام اسلامی مکاتبِ فکر کے درمیان ایک مشترکہ بنیاد ہیں، اس لیے پاکستان تنازع اور اختلافات سے پاک ایک اسلامی معاشرہ بنے گا۔
مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افراد اور گروہ اپنے عقائد اور آراء کی بناء پر برتری کے حقدار ہوں گے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی بے رنگ ہم آہنگی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان اختلاف کو رحمت ہونا چاہیے، زحمت نہیں۔ اگر مسلمانوں کے کسی بھی گروہ، چاہے اقلیت ہو یا اکثریت، کو دوسروں پر حکم چلانے کی اجازت دی گئی تو پاکستان کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
ہر گروہ کو قرارداد کے تجویز کردہ طلوعِ اسلام کے لیے اپنا پورا کردار ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔
(یہ اداریہ ایک ہی دن میں کراچی، لاہور، اور حیدرآباد کے کئی اخبارات میں مشترکہ طور پر شائع ہوا۔)
***
برطانیہ اور ہندوستان کا کرنسی کی قدر میں کمی کا اعلان
ڈان، 22 ستمبر، 1949، (اداریہ)
اپنی کرنسی کی قدر میں کمی نہ کرنے کا پاکستان کا فیصلہ بلند تخیل اور جرات کا عکاس ہے، اور عام طور پر جس فہم کی بناء پر محکوم پالیسیوں کی حمایت کی جاتی ہے، اس فہم سے کہیں زیادہ حقیقت پسند ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے شاید ہی کوئی فیصلے لیے گئے ہیں جن کا اتنی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا، اور جنہیں اتنی عوامی حمایت حاصل ہوئی۔
اس اہم مسئلے پر عوامی امنگوں کی پیروی کرتے ہوئے حکومت کو کم از کم بیس ممالک میں یکے بعد دیگرے کرنسی کی قدر میں کمی پر اعصابی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے اپنی مالی خود مختاری ایک بار پھر جتائی ہے، جس کی کئی ذمہ داریاں اور کئی خطرات بھی ہیں۔
اس ملک کے حالات ان حالات سے بنیادی طور پر مختلف ہیں جن کی وجہ سے برطانیا اور ہندوستان کو کرنسی کی قدر میں کمی کرنی پڑی۔ یہ دونوں ممالک تجارت اور تبادلے میں فقید المثال عدم توازن سے دوچار ہیں۔ سر اسٹیفورڈ کرپس، جو طویل عرصے سے کرنسی کی قدر میں کمی کے امکان کو بھی رد کرنے میں پیش پیش رہے ہیں، کو امریکی اور اقتصادی دباؤ کے تحت سرِ تسلیم خم کرنا پڑا ہے۔ برطانوی قوم سے ان کے وضاحتی خطاب سے یہ محسوس ہوا جیسے انہیں بہت کچھ نگلنا اور بھلانا پڑا۔ وقت ہی بتائے گا کہ آیا کرنسی کی قدر میں کمی برطانیا کو اپنا معیارِ زندگی، سماجی خدمات، اور روزگار کے مواقع کو برقرار رکھنے میں مدد دے گی یا نہیں، جس کے لیے وہ بے تاب ہے۔ اس وقت تو یہ امریکا ہے جو کامیاب ہوا ہے۔
ہندوستان کی کرنسی کی قدر میں کمی کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ڈالر اور اسٹرلنگ منڈیوں میں اس کی مصنوعات کی طلب گر رہی تھی۔ کرنسی کی قدر میں کمی اور باقی تمام چیزوں کے برابر رہنے سے ہندوستان اسٹرلنگ منڈیوں میں برطانیا کا سخت حریف بن کر سامنے آ سکتا ہے۔
تمام اسٹرلنگ ممالک میں ادائیگیوں کے توازن کے معاملے میں پاکستان واحد خوش قسمت ملک ہے۔ اس کی مستحکم کرنسی جنگ کے بعد کی دنیا میں ایک بہت اہم کامیابی ہے۔ یہاں کرنسی کی قدر میں کمی نئے مسائل کھڑے کر دیتی۔
روپے کی قدر میں کمی نہ کرنے کا پاکستانی فیصلہ بنیادی طور پر اپنی کرنسی پر عوام کے فخر کی وجہ سے نہیں بلکہ ضروری معاشی مفادات کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کی بنیادی ضرورت مصنوعات کی ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی سے وہ ڈالر منڈیوں میں خود کو حاصل فائدہ گنوا بیٹھتا، اور مکمل طور پر برطانیا پر منحصر ہوجاتا جس نے اب تک اس ملک کے مفادات کو صرف نظرانداز ہی کیا ہے۔
پاکستان کا فیصلہ کوئی معمولی مزاحمت کا راستہ نہیں ہے۔ نئے حالات سے ہم آہنگ ہونا خودکار یا آسان نہیں ہوگا۔ اس کی تجارت بنیادی طور پر اسٹرلنگ علاقوں میں ہے، اور ہر جگہ کرنسی کی قدر میں کمی سے پاکستان کی تجارت میں کمی اور اپنی پرانی منڈیوں سے بالآخر باہر نکل جانے کا خطرہ موجود ہے۔
***
لیاقت-نہرو معاہدہ
ڈان، 12 اپریل، 1950 (اداریہ)
بھارت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کے اپنی پارلیمنٹ اور پھر اپنی ریڈیو تقریر میں کیے گئے اعلانات اس زبان میں تھے جس سے ان کی گرمجوشی اور اخلاص جھلکتا ہے۔ پاکستان میں جن لوگوں نے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے، اپنے لوگوں کے سامنے معاہدہ پیش کرتے ہوئے، اور اس پر عملدرآمد کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر نہرو کی آواز سنی، انہوں نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ نہرو سچے دل سے مخاطب تھے۔ جیسا کہ مسٹر نہرو نے کہا، یہ معاہدہ حقیقتاً "ایک زبردست قدم" ہے اور ان کے اس بیان، کہ بھارت اور پاکستان "اونچے پہاڑ کے کنارے سے واپس لوٹ گئے ہیں"، کو پاکستان میں مکمل پذیرائی حاصل ہوگی۔
اب یادگار بن چکی دو وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی دہلی کانفرنس کے سب سے اہم فوائد میں سے ایک فائدہ ایک دوسرے کے مقصد میں خلوص کو دل سے تسلیم کرنا ہے۔ اب یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اعتماد اور اعتبار، اور ایک دوسرے کی نیتوں پر یقین، تمام دیگر عناصر میں نیچے کی جانب پھیلتے ہوئے دونوں ممالک کے نچلے ترین اہلکاروں تک پہنچے، تاکہ وہ بھی سرحد پار اپنے ہم منصب پر اتنا ہی اعتبار و اعتماد کریں جتنا کہ ان کے وزرائے اعظم نے نئی دہلی میں ایک دوسرے پر کیا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو مسٹر نہرو نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے جسے ہم سب جانتے ہیں، کہ پاکستان میں لیاقت علی خان "کی پوزیشن ایسی ہے کہ ان کا کہا بہت دور رس اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔" ہمیں کوئی شک نہیں اپنے ملک میں مسٹر نہرو کا قد و قامت اتنا ہی عظیم ہے، اور اپنے لوگوں کو آزادی دلانے میں ان کے غیر معمولی کردار پر انہیں اپنے عوام سے جو عزت و تکریم حاصل ہوئی ہے، وہ اتنی زبردست ہے کہ ان کا کہا بھی اتنی ہی دور رس اہمیت کا حامل ہوگا۔
یہ سچ ہے کہ مسٹر نہرو کے سامنے ان کی اپنی مشکلات ہیں، اور بھارت کی سیاسی زندگی میں سخت گیر عناصر موجود ہیں جو امن کے بجائے دیگر راستوں کے عادی بن چکے ہیں۔ مگر ہمیں امید ہے کہ وہ بھی اس جادوئی تبدیلی کے سحر میں آ جائیں گے جو پورے مجموعی طور پر بھارت و پاکستان کے ماحول میں آئی ہے۔ یہ بھی دور رس اہمیت کی حامل بات ہے کہ بھارت کے نائب وزیرِ اعظم مسٹر ولبھ بھائی پٹیل کو واضح طور پر معاہدے کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ یہ معاہدہ "اس مرحلے کو واپس پلٹنے میں پہلا قدم ہے کہ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے شروع ہوئے تھے"، اور انہوں نے اپنے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ "معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایمانداری سے کوشش کریں۔"
ہم سمجھتے ہیں کہ مسٹر نہرو کے اثر و رسوخ کے علاوہ مسٹر پٹیل کا خوش آئند رویہ وہ واحد سب سے بڑا سبب ہو سکتا ہے جو نہ صرف معاہدے پر عملدرآمد میں مدد دے گا، بلکہ دونوں ممالک کی عوام کے درمیان تعلقات میں بہتری کا بھی باعث بنے گا۔
ہمیں خوشی ہے کہ مسٹر نہرو نے کراچی اور مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ زبردست خوشی اور بے تابی سے اس دن کا انتظار کریں گے۔
***
راولپنڈی سازش کیس
ڈان، 10 مارچ، 1951 (خبر)
وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے آج (9 مارچ) کو انکشاف کیا کہ "پرتشدد طریقوں سے ملک میں شورش پھیلانے اور پاکستان کی مسلح افواج کی وفاداری کو بغاوت میں تبدیل کرنے کے منصوبے" کا پتہ چلا لیا گیا ہے۔
اس سازش کے سرکردہ رہنماؤں میں: چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈ کمانڈر کوئٹہ بریگیڈیئر ایم اے لطیف، ایڈیٹر پاکستان ٹائمز لاہور جناب فیض احمد فیض، اور میجر جنرل اکبر خان کی اہلیہ مسز اکبر خان شامل ہیں۔ مسٹر لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ سازش میں شامل دو فوجی افسران کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید اعلان کیا کہ "سازش کے سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔"
وزیرِ اعظم نے پریس کو یہ اعلامیہ جاری کیا: "پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش کا ابھی کچھ دیر پہلے پتہ لگایا گیا ہے۔ سازش کا مقصد ملک میں پرتشدد ذرائع سے شورش پیدا کرنا تھا، اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے افواجِ پاکستان کی وفاداری کو بغاوت میں تبدیل کرنا تھا۔"
"میں یہ نہیں چھپاؤں گا کہ مجھے فوج کے دو اعلیٰ افسران کو برطرف کرتے ہوئے کس قدر دکھ پہنچا ہے۔ مگر حالیہ معاملے میں کیوں کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع، دونوں کو سنگین خطرہ لاحق تھا، اس لیے مجھے وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کے طور پر محسوس ہوا کہ میرا فرض واضح تھا۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ اس ناخوشگوار مگر اہم فرض کی ادائیگی کے لیے پوری قوم اور خاص طور پر پاکستان کی افواج کی حمایت میرے ساتھ ہے۔
***
پنجاب کے صوبائی انتخابات
ڈان، 7 اپریل، 1951 (اداریہ)
پنجاب کے حالیہ انتخابات اور ان میں لیگ کی زبردست کامیابی میں سب کے لیے ایک اخلاقی سبق موجود ہے، خاص طور پر ان مایوس سیاستدانوں کے لیے جو اقتدار کے حصول کے لیے ہلچل کا راستہ اختیار کر چکے ہیں، اگر انہیں یہ لگے کہ سبق سیکھنے کا وقت اب بھی گیا نہیں ہے۔ تین سالوں سے بھی طویل عرصے سے صوبے کے عوام مشکلات کا شکار تھے جبکہ خود غرض سیاستدان، جنہیں طاقت کی مسلسل ہوس تھی، اپنے ذاتی اور دھڑوں کے مفادات میں الجھے ہوئے تھے، اور ان کے پاس عوام کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔
نوشتہءِ دیوار تو ایک عرصے سے نظر آ رہا تھا، مگر جو شخص دیکھنے سے ہی انکار کر دے، اس سے بڑا نابینا اور کون ہو سکتا ہے؟ وہ خود غرض، جنہیں صوبے کے عوام کی زندگیوں میں تعطل پیدا کرنے اور عوام کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا کرنے کی اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا، اب اپنے حواس میں واپس آ گئے ہیں۔
مسلم لیگ نے انتخابات میں سب سے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی ہے کیوں کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود یہ وہ واحد تنظیم ہے جو قوم کی اجتماعی امنگوں کی نمائندہ ہے اور جس کا واحد مقصد اس ملک کا فائدہ اور عوام کی بھلائی ہے۔ پنجاب کے انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کے متلاشیوں کے صوبائی گروہ جو بھی کریں، عوام کا رویہ بنیادی طور پر معقول ہے اور قومی تنظیم سے ان کی وفاداری کسی پہاڑ کی طرح اٹل ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ ہمارے عوام اتنے بیدار ہیں کہ خوشنما نعرے اور جذباتی اپیلیں انہیں گمراہ نہیں کر سکتیں۔
مسٹر ممتاز دولتانہ، جن پر پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری آئی ہے، کو صوبائی سیاست کو ایک بامقصد سمت دینے اور تعمیری کوششوں کے لیے قوم کی توانائی استعمال کرنے کا ایک نایاب موقع ملا ہے۔ مسلم لیگ کے لیے یہ وہ کرنا کا آخری موقع ہے جس کی عوام کو اس سے توقع ہے۔ پنجاب کے رہنما ضرور مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے عوام میں مایوسی پھیلنے کے سیاسی نتائج پر غور کریں گے۔ مسٹر دولتانہ نے اپنی ٹیم کا انتخاب کر لیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ سب ایک ساتھ دور اندیشی، لگن اور عوام کی بھلائی کے علاوہ کسی انعام کی توقع کے بغیر کام کریں گے۔
***
قائدِ ملت قتل کر دیے گئے
ڈان، اکتوبر 18، 1951 (اداریہ)
لیاقت اب ہمارے درمیان نہیں رہے
پاکستان زندہ باد
اب بانیءِ پاکستان کے جسدِ خاکی سے چند گز دور معمارِ پاکستان ابدی نیند سو رہے ہیں۔ دونوں ہی بہت جلد انتقال کر گئے اور دونوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانیں گیں۔ قائدِ اعظم نے اپنے جسم و جان کی پرواہ کیے بغیر انتھک کام کیا، اور قائدِ ملت فرض اور ملک کی محبت میں اپنے جسم و جان کو لاحق خطرات کے سامنے بے خوف کھڑے ہوئے۔ استاد اور شاگر، اسلام کے یہ دو خادم جنہوں نے اس صدی میں اسلام کی تاریخ میں سب سے تابناک باب کا اضافہ کیا، اب جنت میں دوبارہ ایک ساتھ ہیں۔
جڑواں ستاروں کی طرح، جنہیں نادیدہ ہونے کے باوجود محسوس کیا جا سکتا ہے، ان دونوں رہنماؤں کا فیض مسلسل اس ملک پر جاری رہے گا جن میں سے ایک نے اس ملک کی تعمیر کی، اور دوسرے نے اسے وہ استحکام اور مضبوطی بخشی جس کے نتیجے میں ترقی ناگزیر ہے۔
جس قوم کی ان دونوں نے خدمت کی، اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا کام آگے بڑھائے، اور خصوصاً شہید لیاقت کے خون سے پاکستان کی فتح کا سرخ گلاب اگانے کے لیے کام کرے۔ یہ کام ہم سب کا ہے کیوں کہ پاکستان ہم سب کا ہے۔ مگر لیاقت نے جو ٹیم پیچھے چھوڑی ہے، اس کے منتخب کردہ نئے قائد کے کندھوں پر اس کا سب سے زیادہ بوجھ پڑے گا، اور انتخاب اچھا اور دانشمندانہ ہے۔
ہمارے نئے وزیرِ اعظم اور لیاقت کے جانشین کے طور پر قوم کے نئے رہنما خواجہ ناظم الدین سیاسی اور انتظامی امور کا بیس سال سے زائد تجربہ رکھتے ہیں۔ حکمرانی کے معاملات میں وہ پاکستان کے سب سے زیادہ ماہر شخص ہیں۔ 1935 سے وہ قائدِ اعظم کے وفادار ساتھی رہے ہیں جنہوں نے ایک بار بھی اسلام اور مسلم لیگ کے مقصد سے اپنی وفاداری پر حرف نہیں آنے دیا۔
پاکستان کے حصول کی اس جدوجہد کے دوران ایک سے زیادہ بار ایسے مواقع آئے جب اس وفاداری نے عظیم قربانیوں کا تقاضہ کیا، اور ہر بار وہ آزمائش پر ایسے پورے اترے کہ دوسرے کچھ ہی لوگ ایسا کر سکے۔ اب بھی انہوں نے گورنر جنرل کے عہدے کو خیرباد کہہ کر بڑی قربانی دی ہے کیوں کہ وزیرِ اعظم کا عہدہ کم فوائد مگر زیادہ مشکلات کا حامل ہے۔
خواجہ ناظم الدین مرحوم قائدِ ملت کے بھی قریبی ساتھی رہے ہیں، دونوں ہی آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں ساتھ تھے اور اس کے بعد پاکستان کی تعمیر کے کام میں بھی۔ خواجہ ناظم الدین لیاقت علی خان کے ذہن اور ان کی پالیسیوں کے متعلق شاید کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس وقت پاکستان نے سخت ضرورت کی اس گھڑی میں بالکل درست شخص کیو پایا ہے۔ اب ہمارے لوگوں کو فقید المثال انداز میں متحد ہو کر نئے رہنما اور نئی حکومت کے تحت اکٹھا ہوجانا چاہیے۔
اتنی ہی خؤش آئند بات مسٹر غلام محمد کا خواجہ ناظم الدین کے جانشین اور بطور سربراہِ ریاست انتخاب ہے۔ وہ بھی انتظامی امور کے ماہر اور تجربہ کار شخصیت ہیں، اور اپنی نئی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیں گے۔ انہوں نے پاکستان کی نایاب امتیاز سے خدمت کی ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس ملک کی بے پناہ معاشی ترقی کے لیے انہیں جانا جاتا رہے گا۔
مرکزی کابینہ میں سردار عبدالرب نشتر کی واپسی بھی نہایت خوش آئند ہے جہاں ان کی کمی بری طرح محسوس کی جا رہی تھی۔ انہوں نے بھی گورنر شپ سے دستبردار ہو کر ایک بڑی قربانی دی ہے اور قوم ان کی احصان مند ہے۔
یہ مانا جا سکتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی جانب سے مرکزی کابینہ میں ایسے مزید اضافے بھی اتنے ہی دانشمندانہ ہوں گے اور پاکستان بہترین اور مضبوط ترین حکومت دینے میں کامیاب ہوں گے، جس سے دنیا کو پیغام جائے گا کہ ہمارا ملک کسی بھی بحران اور کسی بھی طوفان کا سامنا کر سکتا ہے۔
یہ رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی۔ اس خصوصی رپورٹ سے مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے بٹنوں پر کلک کریں۔
تاریخ کے گمشدہ اوراق: پاکستان اور ڈان کے 70 سال
دہائیوں سے ڈان کو ’پیپر آف ریکارڈ’ کے طور پر جانا پہچانا جاتا رہا ہے۔ یہ بلاوجہ نہیں۔ اگرچہ مؤرخین شاذ و نادر ہی اخبارات کو اولین معلوماتی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن تشکیل پاکستان کے اوائلی برسوں سے ڈان اخبار کے ایڈیٹرز نے قومی و بین الاقوامی واقعات کو کور کرنے کی غیر معمولی اور ہر ممکن کوشش کی ہے۔
انٹرنیٹ کی آمد سے قبل یہ اخبار باقاعدگی کے ساتھ تاریخی عدالتی فیصلے، رہنماؤں کی تقاریر اور اہم گزیٹ نوٹیفیکیشن بھی شائع کیا کرتا تھا۔ اس بنا پر اس اخبار کے گزشتہ شمارے ایک عمدہ اور قیمتی تحقیقاتی ذریعے کی اہمیت رکھتے ہیں۔
لیکن پیپر آف ریکارڈ بننے کے لیے خبروں کی اشاعت سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اداریوں اور تجزیوں کے ذریعے معاملات کو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ کیا ڈان کے ایڈیٹرز ایمانداری کے ساتھ خبریں کور کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر، کیا انہیں ایسا کرنے دیا گیا؟ یقیناً انہوں نے ایسا کرنے کے لیے اپنی پوری جان لگا دی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتار چڑھاؤ پر مبنی اس ملک کی تاریخ کے کئی اہم مواقع ریکارڈ کر سکے ہیں۔
مسخ شدہ تاریخ
ابتدائی برسوں میں سویلین حکومتوں کی جانب سے میڈیا پہلے ہی دباؤ کی زد میں تھا۔ معاملات اس وقت مزید بگڑ گئے جب ملک میں براہ راست فوجی حکومت اقتدار میں آئی۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی حکمرانوں کو آزاد پریس ذرا بھی برداشت نہیں تھی اور وہ اختلاف رائے کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
1960 کے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس جیسے سیاہ قوانین، بالواسطہ اور براہِ راست سینسرشپ، صحافیوں کی گرفتاریوں، اور کئی مختلف اشاعتی اداروں پر پابندیوں کے ذریعے پریس کی آواز دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ تاریخ کے وہ حصے ہیں جن میں حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کو تقریباً جرم تصور کیا جاتا تھا — بعض اوقات تو برتاؤ بھی مجرموں والا کیا جاتا۔ لہٰذا، ڈان کے گزشتہ شمارے — اگرچہ پاکستان کے سب سے زیادہ قیمتی اثاثوں میں سے ہیں — لیکن تاریخ کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کرتے۔
اخبار کے چند پرانے شماروں پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ چند واقعات کو یا تو رپورٹ نہیں کیا گیا، یا پھر انہیں اصلی حالت میں شائع نہیں کیا گیا۔ مثلاً، ان دنوں کی خبروں کو کھنگالا جائے تو یہ جاننا مشکل ہے کہ نوجوان کمیونسٹ رہنما حسن ناصر اور نذیر عباسی (دو مختلف فوجی حکومتوں کے دوران) تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ پتہ لگانا بھی مشکل ہے کہ ضیا دور میں کتنی تعداد میں سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا گیا تھا، یا پھر مختلف وقتوں میں ہونے والی بلوچستان کی شورش کے دوران کتنی تعداد میں مزاحمت کاروں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی تفصیلات تک جاننے کو نہیں ملتیں۔
یہ ہیں تاریخ کے وہ چند گمشدہ اوراق۔ طاقتور ریاست کی پالیسیاں سچ سے پردہ ہٹانے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوئیں۔
سینسرشپ سے قبل اور ’پریس ایڈوائسز’
جب میں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا تب جنرل ضیاء کا مارشل لاء دورِ حکومت اپنے عروج پر تھا۔ سینکڑوں سیاسی مخالفین جیلوں میں قید تھے۔ صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جیلوں میں تھی اور کئی اشاعتی اداروں پر پابندی عائد تھی۔ حکومت آزاد پریس کو اپنے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک تصور کرتی تھی۔
فوج کے زیر انتظام وزارتِ اطلاعات کے تحت چلنے والے بدنام زمانہ ’پریس ایڈوائسز’ سسٹم کی صورت میں میڈیا کو پابندیوں کا تو پہلے ہی سامنا تھا۔ پھر جلد ہی براہ راست سینسرشپ بھی مسلط کر دی گئی۔ مارشل لاء ضوابط کے تحت تمام اخبارات کا باریکی سے جائزہ لیا جاتا تھا؛ اخبار کا تمام مواد منظوری کے بعد ہی شائع کرنا ہوتا تھا۔
میری ڈیوٹیز میں کبھی کبھار دی اسٹار، کراچی کا اخبار جس کے لیے میں کام کرتا تھا، کی کاپی کو سینسر دفتر لے جانا بھی ہوتا تھا۔ ان یادوں کو مٹانا بہت ہی مشکل ہے۔ نیم پڑھے لکھے افسران قصائیوں کی طرح پیش آتے تھے۔ کوئی بھی ایسی خبر جو حکومت یا فوج کو ذرا سی بھی تنقید کا نشانہ بناتی، یا پھر جن میں مخالف سیاستدانوں کے لیے آواز اٹھائی جاتی انہیں خارج کر دیا جاتا۔
بعض اوقات تو روزمرہ کی جرائم کی خبریں بھی اس وقت نکال دی جاتی تھیں جب افسر کو محسوس ہوتا کہ ان خبروں سے فوجی حکومت کا تشخص خراب ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب دی اسٹار کے ایک پورے شمارے کو ضبط کر لیا گیا کیونکہ اخبار نے ایک ایسی شادی کی تصویر شائع کردی تھی جس میں بے نظیر بھٹو بھی مہمان تھیں۔
سینسر احکامات کے نفاذ کے پہلے دو ہفتوں کے اندر اندر، ڈان، اس کی ذیلی اشاعت دی اسٹار، اور کئی دیگر اخباروں نے اپنے صفحات میں خالی جگہیں چھوڑنا شروع کر دی تھیں جو کہ خبروں اور اداریوں کے نکالے جانے کو ظاہر کرتی تھیں؛ یہ صاف تھا کہ جو شائع کیا جا رہا تھا، وہ ایک مکمل تصویر نہیں تھی۔
ردِ عمل میں حکومت نے اخباروں کو خالی جگہیں چھوڑنے سے منع کر دیا۔ سینسر ہونے والی خبروں سے جو جگہ بچ جاتی، اسے 'بے ضرر مواد' سے پر کیا جاتا تھا، جو اخبار کو مزید کم حقائق پر مبنی بنا دیتا تھا۔ یہ مصیبت اس وقت مزید بڑھ گئی جب بعد میں چند 'جوشیلے' سول سرونٹس نے سالہا سال میں سینسر ہونے والی خبروں یا اداریوں کی محفوظ شدہ دستاویزات کو ’کلاسیفائیڈ’ قرار دے کر چُھپا دیا یا پھر مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یوں پیچھے کوئی ثبوت باقی نہ بچا کہ اخبارات کیا کچھ شائع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
منظم کنٹرول
میڈیا کو دبانے والے صرف فوجی حکمران ہی نہیں تھے۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کے دور میں بھی کئی صحافیوں کو جیل میں بند کیا گیا اور اشاعتی اداروں پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن میڈیا پر منظم کنٹرول کی بنیاد ایوب خان کے دور میں متنازع پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس، 1963 کی صورت میں ڈالی گئی۔
پاکستان کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کی ان کی کوشش نے آزاد پریس کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ حکومت نے نہ صرف کئی ترقی پسند اخباروں کے مالکانہ حقوق حاصل کر لیے، بلکہ دیگر کو بدترین پابندیوں کا بھی نشانہ بنایا۔ افسوس کے ساتھ، چند اخبارات اور ان کے ایڈیٹروں نے — یا تو دباؤ میں آتے ہوئے یا پھر مکمل یقین کے ساتھ — ایوب میں ایک روشن خیال فوجی حکمران دیکھا، اور غیر مشروط طور پر ان کی کئی پالیسیوں کی حمایت کی۔ حقیقی موت آزاد میڈیا کی ہوئی تھی۔
جنرل یحییٰ خان کی حکومت بھی آزادئ پریس کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ملک کے دو لخت ہونے اور بنگلہ دیش کے قیام کی وجہ بننے والے واقعات کے میڈیا بلیک آؤٹ کے ساتھ ساتھ 17 دسمبر 1971 کے دن زیادہ تر پاکستانی اخبارات کے پہلے صفحے اس وقت پریس پر عائد پابندیوں کی ایک افسوسناک یاد دہانی ہیں۔
ڈان کی اپنی شہہ سرخی ’وار ٹِل وکٹری’ (فتح تک جنگ) بھی یحییٰ خان کے قوم سے خطاب پر مشتمل تھی۔ دن کی اصل خبر کو محض دو کالموں کے اندر چند جملے ڈال کر ایک کونے میں چھپا دیا گیا تھا۔ ایک بڑی ہی مبہم شہہ سرخی ’مشرقی حصے میں لڑائی کا اختتام’ کے ساتھ راولپنڈی سے سرکاری طور پر کلیئر قرار دی گئی خبر کچھ یوں تھی کہ، "تازہ ترین اطلاعات یہ اشارہ دیتی ہیں کہ مشرقی میدانِ جنگ میں ہندوستان اور پاکستان کے مقامی کمانڈرز کے درمیان معاہدے کے بعد مشرقی پاکستان میں جنگ بندی ہو چکی ہے اور ہندوستانی فوجیں ٖڈھاکہ میں داخل ہو چکی ہیں۔"
صرف اتنی سی خبر، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کو شہریوں تک پہنچنے دیا گیا تا کہ شہریوں کو یہ اطلاع دی جا سکے کہ پاکستان اپنا مشرقی حصہ کھو چکا ہے۔
پاکستان کی آزادی کے اوائلی برسوں سے ہی میڈیا کو مختلف اقسام کے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ ماضی میں اگر 1953 تک پیچھے جائیں تو اس وقت کے ڈان کے ایڈیٹر، الطاف حسین، اتنے مایوس ہوئے کہ انہوں نے ایک شمارے میں تو اداریے کی جگہ ہی خالی چھوڑ دی۔
جہاں وہ کالم شائع ہونا تھا اس کے نیچے انہوں نے مندرجہ ذیل سطریں اپنے ہاتھوں سے لکھیں کہ:
"جب سچ آزادی سے نہ بولا جا سکتا ہو، اور حب الوطنی کو تقریباً ایک جرم سمجھا جاتا ہو، ایسے میں قائدِ اعظم کی سالگرہ کے موقعے پر اداریے کی یہ جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے، تاکہ لفظوں سے زیادہ بلیغ انداز میں بات کہی جا سکے۔"
نام نہاد آزادی
اگر سچائی پہلے وقتوں میں کم فراہم کی جاتی تھی تو آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ، میڈیا ایک منتخب حکومت کا تنقیدی جائزہ لے سکتا ہے، اس کی پالیسیوں کی جانچ پڑتال اور اس کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں کا انکشاف کر سکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینلوں پر، اور پرنٹ میڈیا کے بڑے حلقوں میں سیاسی مسائل پر نظر آنے والی بے لگام بحث و مباحثے اس بات کا ثبوت بھی ہیں۔
یہ کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عرصے کے دوران ریاست (یا اس کے چند حصے) نہ صرف مزید طاقتور ہوئے ہیں، بلکہ یہ میڈیا — یا پھر اس کے کئی بڑے حصوں — پر کس کر لگام ڈالے رکھنے کے لیے نت نئے طریقے بھی اختیار کر چکے ہیں۔
سطح کو تھوڑا سا کرید کر دیکھیں گے تو آپ پائیں گے کہ رپورٹنگ کے حوالے سے نو گو ایریاز کی تعداد میں — غیر معمولی طور پر — اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ جسے چند افراد ’گہری ریاست’ کے طور پر پکارتے ہیں، اپنے پنجے پھیلاتا جا رہا ہے، ویسے ویسے یہ عفریت ایماندارانہ جانچ پڑتال سے بھی بچ کر نکل رہا ہے۔
مطالبات کی ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے: ’شورش زدہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر رپورٹ نہ کریں'؛ مذہبی شدت پسندوں یا مشتبہ دہشتگردوں سے جڑے واقعات میں ذمہ داری کے دعووں پر سوال نہ کریں’؛ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اٹھانا کوئی اچھا خیال نہیں ہے’؛ اور ’ماورائے عدالت قتل پر روشنی ڈالنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں’۔ حتیٰ کہ شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے پر حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان اختلافات کو رپورٹ کرنا بھی قبول نہیں— جس کا اندازہ آپ ڈان کی 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والی سیرل المیڈا کی لکھی خبر سے لگا سکتے ہیں۔ اس قسم کی خبروں کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی تصور کیا جاسکتا ہے، اور اکثر کیا جاتا بھی ہے۔
وہ میڈیا جو ان ہدایات پر عمل پیرا ہوتا ہے اسے ’حب الوطن’ کہا جاتا ہے۔ وہ چند جو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں ان سے بدترین سلوک برتا جاتا ہے، جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے بیہودہ مہمات کا چلایا جانا شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں، ایسے ہی کچھ زبانی قواعد و ضوابط کا دائرہ کار ایسے معاملات تک بھی پھیلا دیا گیا ہے جن کا دور دور تک قومی سلامتی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مثلاً، کاروباری اداروں بشمول نیشنل لاجسٹکس سیل یا ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی، میں ہونے والی بدعنوانیوں پر روشنی ڈالنا۔ بلکہ یہ دائرہ کار ’ان کے خرچے پر بننے والی فلموں’ کے تنقیدی جائزوں تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ ایک خود ساختہ ’قومی بیانیے’ کو ایک نئی تقویت بخشنے کے لیے، اس قسم کے تمام مسائل پر تنقیدی رپورٹنگ کرنے کو ’غیر محب وطن رویے’ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ ایک ماتحت میڈیا کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ قصداً یا بلاقصد از خود سینسرشپ کی جانب مائل ہو جاتا ہے — جو براہ راست سینسرشپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گمراہ کن اور نقصان دہ ہے۔
ناگہانی خطرے
حقیقت پر مبنی صحافت پر قابو پانے کی کوششیں صرف ریاستی اداروں کی خبروں میں ترمیم کی سرگرمیوں تک محدود نہیں۔ ایک دوسرا میڈیا مخالف کھلاڑی پرتشدد انتہاپسندوں کی لاتعداد فوج کی صورت میں ابھرا ہے۔ 1980 کی دہائی میں اگر ایم کیو ایم نے مسلح حکمت عملیوں کے بیج بوئے تھے، تو اب ایسے ہی طریقے بلوچ مزاحمت کار اور، ان سے بھی زیادہ پرتشدد، مذہبی شدت پسندوں کے مختلف دھڑے اختیار کر رہے ہیں۔
فوج اپنے بیانے کو فروغ دے رہی ہے اور شدت پسند اپنے بیانے کو، ان دو کے بیچ میں پھنسے بلوچستان یا فاٹا میں بیٹھے کسی ضلعی نمائندے سے حقائق پر مبنی کوئی خبر رپورٹ کرنے کی توقع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اپنے ’جرائم’ کی وجہ سے کئی ایسے نمائندوں کو تو سزائیں پہلے ہی مل چکی ہیں اور کئی دیگر صحافی اپنا پیشہ چھوڑ رہے ہیں، کوئی بھی ایڈیٹر ان نمائندوں سے معروضی طور پر خبریں رپورٹ کرنے کے لیے کہنے کی جرات نہیں کرتا۔
اور پھر چند کمرشل مفادات ہیں جن کے باعث، میڈیا، یا میڈیا کا ایک بڑا حصہ، ماتحت رہنے پر مجبور رہتا ہے۔
ایک کے بعد ایک حکومتیں اپنی سرگرمیوں کی تشہیر یا پھر خبروں کو دبانے کے لیے اپنے تشہیری بجٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسے ہی جذبے سے سرشار بڑے بڑے کمرشل ادارے اپنے اشتہاروں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان اخبارات پر دباؤ ڈالتے ہیں جو ان اسکینڈلوں کا انکشافات کرتے ہیں جن میں وہ ادارے شامل ہوتے ہیں۔ کئی مواقع پر ڈان اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا چکا ہے، اور نقصان اٹھاتا رہے گا، کیونکہ حکومت یا حکومتی طبقات یا پھر بڑے کمرشل ادارے اخبار کی کوریج سے خوش نہیں ہیں۔
آج بھلے ہی پاکستان ایک آمرانہ ریاست نہ ہو، لیکن اب بھی چند ریاستی ادارے اس ملک کو ایسی ریاست میں بدلنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ طاقتور ریاست یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ آزاد پریس ایک جمہوری سماج کی بالترتیب ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔
بدقسمتی سے آمرانہ ریاست کے حامی حقیقت پر مبنی صحافت، پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کے درمیان تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
صحافت کا مطلب بولنے کی آزادی نہیں ہے، بلکہ یہ حدود میں رہتے ہوئے اظہار کا نام ہے۔ صحافت چند اقدار کے اندر رہتے ہوئے اپنا فرض انجام دیتی ہے، ان میں سے سب سے زیادہ ضروری صداقت، صرف سچ پر مبنی، غیر جانبداری اور قابل احتساب رپورٹنگ ہیں۔ اور ڈان نے ان باتوں پر ہمیشہ زور دیا ہے، جو کہ اب ’قارئین کا ایڈیٹر’ یا داخلی محتسب بھی قائم کر چکا ہے، تا کہ اخلاقی تقاضوں کی خلاف ورزیوں پر قابو پایا جا سکے۔
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ برسوں پر محیط سینسرشپ اور دیگر پابندیوں کے باعث، ڈان شاید پیپر آف ریکارڈ کے معیار پر ہمیشہ پورا نہ اتر پایا ہو لیکن پھر بھی اس معیار کے قریب تر ضرور ہے۔ اب جبکہ بیڑیوں سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری ہے، تو ایسے میں آپ یہ امید ہی کر سکتے ہیں کہ تمام رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود، یہ اخبار ملک میں اخلاقی اور صداقت پر مبنی صحافت کے اس معیار پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیلنجز پر پورا اترے گا، جس معیار کے قیام میں اس نے مدد دی ہے۔
ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔
یہ رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی۔ اس خصوصی رپورٹ سے مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے بٹنوں پر کلک کریں۔
لیاقت علی خان کا قوم سے خطاب
منٹو کے بارے میں
صبحِ آزادی
یہ رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی۔ اس خصوصی رپورٹ سے مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے بٹنوں پر کلک کریں۔