سرکاری حلقوں کی جانب سے دباؤ بہت عرصہ پہلے سے ڈالا جانے لگا تھا۔ 1953 میں ایڈیٹر الطاف حسین نے اس رجحان کے خلاف احتجاجاً ڈان کے 25 دسمبر 1953 کے شمارے میں اداریے کی جگہ خالی چھوڑ دی۔
"جب سچ آزادی سے نہ بولا جا سکتا ہو، اور حب الوطنی کو تقریباً ایک جرم سمجھا جاتا ہو، ایسے میں قائدِ اعظم کی سالگرہ کے موقعے پر اداریے کی یہ جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے، تاکہ لفظوں سے زیادہ بلیغ انداز میں بات کہی جا سکے۔"
نام نہاد آزادی
اگر سچائی پہلے وقتوں میں کم فراہم کی جاتی تھی تو آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ، میڈیا ایک منتخب حکومت کا تنقیدی جائزہ لے سکتا ہے، اس کی پالیسیوں کی جانچ پڑتال اور اس کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں کا انکشاف کر سکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینلوں پر، اور پرنٹ میڈیا کے بڑے حلقوں میں سیاسی مسائل پر نظر آنے والی بے لگام بحث و مباحثے اس بات کا ثبوت بھی ہیں۔
یہ کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عرصے کے دوران ریاست (یا اس کے چند حصے) نہ صرف مزید طاقتور ہوئے ہیں، بلکہ یہ میڈیا — یا پھر اس کے کئی بڑے حصوں — پر کس کر لگام ڈالے رکھنے کے لیے نت نئے طریقے بھی اختیار کر چکے ہیں۔
سطح کو تھوڑا سا کرید کر دیکھیں گے تو آپ پائیں گے کہ رپورٹنگ کے حوالے سے نو گو ایریاز کی تعداد میں — غیر معمولی طور پر — اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ جسے چند افراد ’گہری ریاست’ کے طور پر پکارتے ہیں، اپنے پنجے پھیلاتا جا رہا ہے، ویسے ویسے یہ عفریت ایماندارانہ جانچ پڑتال سے بھی بچ کر نکل رہا ہے۔
مطالبات کی ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے: ’شورش زدہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر رپورٹ نہ کریں'؛ مذہبی شدت پسندوں یا مشتبہ دہشتگردوں سے جڑے واقعات میں ذمہ داری کے دعووں پر سوال نہ کریں’؛ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اٹھانا کوئی اچھا خیال نہیں ہے’؛ اور ’ماورائے عدالت قتل پر روشنی ڈالنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں’۔ حتیٰ کہ شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے پر حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان اختلافات کو رپورٹ کرنا بھی قبول نہیں— جس کا اندازہ آپ ڈان کی 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والی سیرل المیڈا کی لکھی خبر سے لگا سکتے ہیں۔ اس قسم کی خبروں کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی تصور کیا جاسکتا ہے، اور اکثر کیا جاتا بھی ہے۔
وہ میڈیا جو ان ہدایات پر عمل پیرا ہوتا ہے اسے ’حب الوطن’ کہا جاتا ہے۔ وہ چند جو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں ان سے بدترین سلوک برتا جاتا ہے، جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے بیہودہ مہمات کا چلایا جانا شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں، ایسے ہی کچھ زبانی قواعد و ضوابط کا دائرہ کار ایسے معاملات تک بھی پھیلا دیا گیا ہے جن کا دور دور تک قومی سلامتی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مثلاً، کاروباری اداروں بشمول نیشنل لاجسٹکس سیل یا ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی، میں ہونے والی بدعنوانیوں پر روشنی ڈالنا۔ بلکہ یہ دائرہ کار ’ان کے خرچے پر بننے والی فلموں’ کے تنقیدی جائزوں تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ ایک خود ساختہ ’قومی بیانیے’ کو ایک نئی تقویت بخشنے کے لیے، اس قسم کے تمام مسائل پر تنقیدی رپورٹنگ کرنے کو ’غیر محب وطن رویے’ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ ایک ماتحت میڈیا کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ قصداً یا بلاقصد از خود سینسرشپ کی جانب مائل ہو جاتا ہے — جو براہ راست سینسرشپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گمراہ کن اور نقصان دہ ہے۔
ناگہانی خطرے
حقیقت پر مبنی صحافت پر قابو پانے کی کوششیں صرف ریاستی اداروں کی خبروں میں ترمیم کی سرگرمیوں تک محدود نہیں۔ ایک دوسرا میڈیا مخالف کھلاڑی پرتشدد انتہاپسندوں کی لاتعداد فوج کی صورت میں ابھرا ہے۔ 1980 کی دہائی میں اگر ایم کیو ایم نے مسلح حکمت عملیوں کے بیج بوئے تھے، تو اب ایسے ہی طریقے بلوچ مزاحمت کار اور، ان سے بھی زیادہ پرتشدد، مذہبی شدت پسندوں کے مختلف دھڑے اختیار کر رہے ہیں۔
فوج اپنے بیانے کو فروغ دے رہی ہے اور شدت پسند اپنے بیانے کو، ان دو کے بیچ میں پھنسے بلوچستان یا فاٹا میں بیٹھے کسی ضلعی نمائندے سے حقائق پر مبنی کوئی خبر رپورٹ کرنے کی توقع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اپنے ’جرائم’ کی وجہ سے کئی ایسے نمائندوں کو تو سزائیں پہلے ہی مل چکی ہیں اور کئی دیگر صحافی اپنا پیشہ چھوڑ رہے ہیں، کوئی بھی ایڈیٹر ان نمائندوں سے معروضی طور پر خبریں رپورٹ کرنے کے لیے کہنے کی جرات نہیں کرتا۔
اور پھر چند کمرشل مفادات ہیں جن کے باعث، میڈیا، یا میڈیا کا ایک بڑا حصہ، ماتحت رہنے پر مجبور رہتا ہے۔
ایک کے بعد ایک حکومتیں اپنی سرگرمیوں کی تشہیر یا پھر خبروں کو دبانے کے لیے اپنے تشہیری بجٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسے ہی جذبے سے سرشار بڑے بڑے کمرشل ادارے اپنے اشتہاروں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان اخبارات پر دباؤ ڈالتے ہیں جو ان اسکینڈلوں کا انکشافات کرتے ہیں جن میں وہ ادارے شامل ہوتے ہیں۔ کئی مواقع پر ڈان اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا چکا ہے، اور نقصان اٹھاتا رہے گا، کیونکہ حکومت یا حکومتی طبقات یا پھر بڑے کمرشل ادارے اخبار کی کوریج سے خوش نہیں ہیں۔
آج بھلے ہی پاکستان ایک آمرانہ ریاست نہ ہو، لیکن اب بھی چند ریاستی ادارے اس ملک کو ایسی ریاست میں بدلنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ طاقتور ریاست یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ آزاد پریس ایک جمہوری سماج کی بالترتیب ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔
بدقسمتی سے آمرانہ ریاست کے حامی حقیقت پر مبنی صحافت، پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کے درمیان تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
صحافت کا مطلب بولنے کی آزادی نہیں ہے، بلکہ یہ حدود میں رہتے ہوئے اظہار کا نام ہے۔ صحافت چند اقدار کے اندر رہتے ہوئے اپنا فرض انجام دیتی ہے، ان میں سے سب سے زیادہ ضروری صداقت، صرف سچ پر مبنی، غیر جانبداری اور قابل احتساب رپورٹنگ ہیں۔ اور ڈان نے ان باتوں پر ہمیشہ زور دیا ہے، جو کہ اب ’قارئین کا ایڈیٹر’ یا داخلی محتسب بھی قائم کر چکا ہے، تا کہ اخلاقی تقاضوں کی خلاف ورزیوں پر قابو پایا جا سکے۔
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ برسوں پر محیط سینسرشپ اور دیگر پابندیوں کے باعث، ڈان شاید پیپر آف ریکارڈ کے معیار پر ہمیشہ پورا نہ اتر پایا ہو لیکن پھر بھی اس معیار کے قریب تر ضرور ہے۔ اب جبکہ بیڑیوں سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری ہے، تو ایسے میں آپ یہ امید ہی کر سکتے ہیں کہ تمام رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود، یہ اخبار ملک میں اخلاقی اور صداقت پر مبنی صحافت کے اس معیار پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیلنجز پر پورا اترے گا، جس معیار کے قیام میں اس نے مدد دی ہے۔
انگلش میں پڑھیں۔
ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔