سعودی فرمانروا کا قطری عازمینِ حج کیلئے سرحد کھولنے کا حکم
سعودی عرب اور قطر کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے حج کے موقع پر قطر کی سرحد دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سلوا سرحد کو رواں سال جون میں اُس وقت بند کردیا گیا تھا جب سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سمیت 6 عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے دوحہ کے ساتھ زمینی اور فضائی رابطے بھی ختم کر دیے تھے۔
ان ممالک کی جانب سے قطر پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق قطری عازمین حج کے لیے سرحد کھولنے کا اعلان دوحہ سے آنے والے سفیر اور شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے
یہ خلیج تنازع کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا پہلی اعلیٰ سطح کا رابطہ تھا۔
سعودی پریس ایجنسی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ 'فرمانروا نے قطری عازمین کو سلوا بارڈر کے ذریعے سعودی عرب میں داخلے اور حج کی اجازت دے دی ہے‘۔
بیان کے مطابق شاہ سلمان نے حکم دیا ہے کہ ’سعودی عرب کے پرائیوٹ جیٹ قطری عازمین کو لینے دوحہ ایئرپورٹ جائیں‘۔
بیان میں کہا گیا کہ تاج پوش شہزادے نے قطری شیخ عبداللہ بن علی بن عبد اللہ بن جاثم الثانی سے ملاقات کے بعد سعودی عرب اور قطری عوام کے تاریخی تعلق پر زور دیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ حج کی خواہش رکھنے والے قطری افراد کو سعودیہ میں داخلے کی اجازت دے دی جائے گی تاہم چند پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے ہوائی سفر کے حوالے سے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
جس کے بعد قطری انتظامیہ نے سعودی عرب پر حج کو سیاسی کرنے اور عازمین کو سیکیورٹی کا نشانہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قطر کا سعودی عرب پر عازمین حج کو روکنے کا الزام
یہ بھی یاد رہے کہ 23 جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر کے سامنے سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی بندش سمیت 13 مطالبات پیش کیے تھے۔
جبکہ قطر کو ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دی گئی تھی۔
تاہم قطر نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی مطالبات کی فہرست مسترد کرتے ہوئے ان مطالبات کو نامناسب اور ناقابل عمل قرار دیا تھا۔