نقطہ نظر

ضیاء کی موت اور دردِ جمہوریت

ملکی سیاست میں بھٹو اور ضیاء ایک دوسرے کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں مگر پہلی بار کی طرح ہر بار سیاست پرضیاء غالب آ جاتا ہے۔

پاکستان میں جو جمہوریت کا درد رکھتے ہیں وہ پانچ جولائی کو یاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ پانچ جولائی 1977 کو اس ملک میں ضیاء الحق نامی آرمی چیف نے ملک کے موجودہ وزیراعظم، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی اور انہیں وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کر والیا۔

ضیاء الحق نے پورے ملک میں مارشل لا لے نفاذ کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا اور آئین کو معطل کر دیا۔ اسی ضیاء الحق نے اپنے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ناکردہ خون کے جرم میں پھانسی پر چڑھوادیا، لوگ اس پھانسی کو آج بھی عدالتی قتل کہتے ہیں۔

پیپلزپارٹی ہر سال پانچ جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔

اس طرح کی ایک اور کارروائی 12 اکتوبر 1999 کو بھی ہوئی تھی، لیکن اس بار گرفتار کیے گئے وزیر اعظم، نواز شریف کو پھانسی دینے کے بجائے ملک بدر کر دیا گیا، ملک کی حکومت پر قبضہ کرنے والے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے پہلے خود کو چیف ایگزیکیٹو نامزد کیا، ملک کا آئین معطل کیا اور وہی کچھ کیا جو ان سے پچھلے آمروں نے کیا تھا۔

اس وقت نواز شریف پر طیارہ ہائی جیکنگ کیس کا مقدمہ چلا، جس میں پہلے انہیں سزائے موت سنائی گئی بعد ازاں اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا۔ جنرل ضیاالحق کی پرورش اور تعلقات میاں نواز شریف کو کام آ گئے اور سعودی عرب کی ضمانت پر انہیں ملک بدر کر دیا گیا، نتیجے میں ان کی جان بچ گئی۔

1999 کے بعد اب تک مسلم لیگ ن بھی 12 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔

جمہوریت کا درد رکھنے والے 17 اگست کا دن بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہاں وہ اس تاریخ پر کسی قسم کی تقریبات تو منعقد نہیں کرتے لیکن ان کے نزدیک اس تاریخ کی اہمیت پانچ جولائی سے بھی زیادہ ہے، کچھ دل جلوں نے اس دن کو اپنی زندگی کا سب سے اہم دن قرار دیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاریخ ایک پرانے زخم کے سوا اور کچھ بھی نہیں رہی۔

اس تاریخ کو 1988 کے ماہ اگست کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ بہاولپور کے قریب ایک طیارے میں رکھی گئی آموں کی پیٹیاں پھٹ گئیں، دھماکے کے بعد اس طیارے نے آگ کے ایک بڑے گولے کی شکل اختیار کی اور آس پاس کے دیہاتیوں کو ایک لمحے کے لیے کچھ بھی سمجھ نہ آیا، آس پاس کے دیہات کے لوگ جہاں موجود تھے اٹھ کھڑے ہو گئے، انہیں سمجھ نہ آیا کہ آخر ہو کیا رہا ہے، اس دور میں نہ ٹی وی تھا نہ لال پٹی والے ٹکرز اور نہ ہی بریکنگ نیوز کا وجود تھا۔ خدا نے آج کے میڈیا کی عزت رکھ لی، اگر وہ اس وقت ہوتا تو ضیاء الحق کی مدح سرائی میں زمین و آسمان ایک کر دیتا لیکں خیر، چند گھنٹوں بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ پانچ جولائی کا فاتح ضیاء الحق اپنے دو درجن سے زائد رفقا سمیت اب اس دنیا میں نہیں رہا۔

18 اگست 1988 کو ڈان اخبار کا صفحہء اول۔

اس وقت کے سینیٹ چیئرمین غلام اسحاق خان نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں "اور طیارہ پھٹ گیا" کا اعلان کیا اور ملک کے قائم مقام صدر بن گئے۔ ضیاء الحق کی تدفین قومی اعزاز کے ساتھ کی گئی۔ پاکستان ٹی وی پر خبرنامہ پڑھنے والے ایک نیوز کاسٹر نے ضیاء الحق کی تدفین کے تمام مراحل کی کمنٹری کی اور جی بھر کے روئے۔

کسے دل جلے شاعر نے اپنی نظم میں اپنے محبوب کی آمد کو "زندگی کی ذلیل گھڑیوں میں ضیاء کے موت کی خبر ہو" کی طرح تشبیہ دی۔ بعد ازاں بہاوالپور کے قریب سے جو کچھ ملا اسے قومی اعزاز کے ساتھ شاہ فیصل مسجد کے صحن میں دفن کر دیا گیا۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ ضیاء الحق صرف شاہ فیصل مسجد کے صحن میں مدفون ہیں، لیکن انہیں کون سمجھائے کہ وہ تو میری بچی کے درسی کتاب میں موجود ہیں، میرے گھر جو اخبار آتا ہے وہ اس کی خبروں اور مضامین کی ترتیب میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے، میری گلی کے نکڑ پر چائے کے ڈھابے پر سیاسی گفتگو کرنے والے لوگوں کے مباحثوں میں ملتا ہے، وہ ویگن میں سفر کرتے ہوئے ہر دوسرے مسافر کے اندر سے باہر نکل آتا ہے، وہ نوجوان کنڈکٹر جس نے نہ ضیاء الحق کو دیکھا نہ کبھی سنا نہ اسے معلوم کہ وہ کیا تھا لیکن وہ بلواسطہ ’فکر ضیاء‘ کا اسیر نظر آتا ہے۔ وہ ملک کے پارلیمان میں بھی اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتا ہے۔ جدھر دیکھوں ادھر تو ہی تو ہے والی بات ہے!

پاکستان کی سیاست میں بھٹو اور ضیاء ایک دوسرے کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں لیکن پہلی بار کی طرح ہر بار پاکستان کی سیاست پر ضیاء الحق غالب آ جاتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ بھٹو ایک سیاسی نظریہ ہے، لیکن ضیا کا نظریہ اس ملک میں اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہ صرف میاں نواز شریف ہی نہیں عمران خان میں بھی کسی نہ کسی طرح موجزن ہیں، جماعت اسلامی ہو یا لال حویلی والے شیخ، کون ہے جو ان کے نظریے کا انکاری ہے، ہاں نام ہی نہیں لیتا لیکن عمل پورا کرتا ہے۔ حالانکہ اب اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ خود اس نظریے سے توبہ تائب ہوتی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود ضیاء الحق کو کوئی شکست نہیں دے سکا۔

پاکستان میں جولائی اور اگست اس ملکی تاریخ میں ان دو ماہ نے ملک کی سیاسی تاریخ پر بہت اثرات چھوڑے ہیں۔ رواں سال 28 جولائی کو جب اس ملک کی سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نا اہل کیا تو اچانک میاں صاحب کے سامنے 33 سال کے سیاسی سفر کے تمام مناظر ایک سیکنڈ کے 33 ویں حصے میں سامنے آ گئے۔

میاں صاحب 32 سال 11 ماہ 29 دن جس شخص کو اپنا اعلانیہ اور غیر اعلانیہ محسن قرار دیتے رہے وہ اسے اچانک کھٹکنے لگا، پاکستان کے آئین میں ضیائی باقیات کے وہ سب سے بڑے دشمن دکھائی دیے، انہیں اچانک یاد آیا کہ پاکستان کے آئین میں ان کے محسن نے ایک ایسی شق' ڈال دی تھی جو عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے، اس کی زد میں اس ملک کے 20 کروڑ عوام آ سکتے ہیں لیکن یہ پھندا جس کے گلے میں فٹ ہو اس کی گردن میں ڈال دیا جاتا ہے۔

میاں صاحب کو اس بات کا احساس اس وقت ہوا ہے جب ان کے قدموں تلے زمین نکلی ہے، اب انہیں ایک بڑے قومی ڈائلاگ کی بات ذہن میں آئی ہے۔ انہیں اچانک یاد آیا ہے کہ اس ملک کے عوامی ووٹ کی عزت نہیں کی جاتی، وہ اس بار سب سے بڑے جمہوریت پسند ہونے کی دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن 5جولائی کے متاثرین اب ان کی بات سننے کو تیار نظر نہیں آتے۔

چونکہ پاکستان میں ایک عرصے تک 17 اگست کو یوم نجات کو طور پر بھی منایا جاتا رہا لیکن پاکستان کے لوگوں کی نجات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ضیاء الحق اپنے تمام نظریات کے ساتھ اس ملک کے آئین میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے گا۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں، ہمیں آئین و قانون، ذاتی عناد اور مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کے سماجی معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر بہتر بنانے ہوں گے۔

پاکستان میں 17 اگست تو ایک بار آیا تھا، جبکہ 5 جولائی اور 12 اکتوبر تو آتے رہتے ہیں۔17 اگست تو ایک عارضی جسمانی نجات کا دن تھا۔ لیکن حتمی نجات اس وقت ممکن ہوگی جب ملک کے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے ورنہ 17 اگست سوائے ایک تاریخ کے کچھ بھی نہیں ہوگا، جس کا تعلق کسی واقعے سے ہوسکتا ہے اور واقعات وقت کے ساتھ ساتھ مٹتے چلے جاتے ہیں۔

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔