پاکستان

نیب صوبے میں اپنی تحقیقات جاری رکھے: سندھ ہائی کورٹ

سندھ ہائی کورٹ نے نیب انکوائری کا سامنا کرنےوالے اراکین صوبائی اسمبلی اور بیوروکریٹس کے ناموں کی فہرست بھی طلب کرلی۔
|

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو صوبے میں تحقیقاتی کارروائیاں جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انکوائری کا سامنا کرنے والے اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کے ناموں کی فہرست طلب کرلی۔

سندھ ہائی کورٹ میں نیب آرڈیننس کو سندھ میں کالعدم قرار دینے کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کا عمل منسوخ کیا جائے۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب کورٹس نے صوبے میں اپنا کام کرنا بند کر دیا ہے جس پر درخواست گزار فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ صوبائی قانون کے ذریعے وفاقی قانون کو ختم کر دیا گیا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین ہے۔

مزید پڑھیں: نیب کو سندھ میں کرپشن پرکارروائی کااختیارنہیں ہوگا، بل منظور

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں جا چکا ہے لہٰذا سندھ ہائی کورٹ اس کی سماعت نہیں کرسکتی۔

عدالت نے احتساب بیورو کو صوبے میں جاری انکوائریز جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے نیب انکوائری کا سامنا کرنے والے سندھ اسمبلی کے اراکین اور صوبے کے بیوروکریٹس کے ناموں کی فہرست بھی طلب کر لی۔

بعدازاں عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کیے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی میں 'نیب آرڈیننس سندھ 1999' منسوخی کا بل اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود منظور کیا تھا جس کے بعد اسے قانون کا درجہ دینے کی غرض سے توثیق کے لیے گورنر سندھ کو بھیجا گیا، تاہم گورنر سندھ محمد زبیر نے بل پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی توثیق سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے بغیر سندھ اسمبلی میں سندھ احتساب بل پھر منظور

گورنر سندھ نے بل پر اعتراض لگایا تھا کہ نیب قوانین کا خاتمہ عوامی مفاد سے متصادم ہے، انہوں نے سندھ اسمبلی کو بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت بھی کی تھی۔

بعد ازاں 26 جولائی 2017 کو پی پی پی کی صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے بغیر سندھ نیب آرڈیننس کا خاتمہ کرکے سندھ احتساب بل کو گورنر کے اعتراضات کے باوجود ایک مرتبہ پھر منظور کرلیا جبکہ اپوزیشن نے سندھ احتساب بل کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ اسمبلی قانون کے تحت اگر گورنر کسی بل پر دستخط نہیں کرتے اور اسے دوبارہ ایوان میں پیش کرنے پر منظوری مل جائے تو یہ قانون بن جاتا ہے۔

تاہم حکومتِ سندھ کے محکمہ قانون نے رواں ماہ 10 اگست کو احتساب آرڈیننس 1999 کا اطلاق ختم کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا، جس کے بعد سندھ احتساب آرڈیننس کو قانون کی صورت میں نافذ کردیا گیا۔

بعدازاں سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور کیے گئے قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 منسوخی ایکٹ 2017 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ نثار احمد کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیب قانون کو آئین کے آرٹیکل 270 ’اے‘ کے تحت تحفظ حاصل ہے، سندھ اسمبلی کو نیب قانون کی منسوخی کا اختیار نہیں، قومی احتساب بیورو آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، جبکہ نیب کے قانون میں تبدیلی یا منسوخی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

ایک روز بعد ہی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور مسلم لیگ فنکشنل نے بھی صوبائی حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے نئے سندھ احتساب آرڈیننس کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے درخواست جمع کرائی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نئے قانون کا مقصد صوبے میں برسرِاقتدار جماعت کی کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا ہے جبکہ وفاقی قانون کو ختم کرکے صوبائی قانون لانا آئین کی بنیادی اسکیم کے خلاف ہے۔