وسط اگست 1947 میں برِصغیر کے نو آبادیاتی آقا نے اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے ایک قانون منظور کیا تھا جسے 'قانونِ آزادیءِ ہند 1947' یا انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ 1947 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر دو ملک بنے تھے جو یوں تو برطانیہ سے آزادی حاصل کر چکے ہیں، مگر آج بھی سیاسی و قانونی نظام میں اپنے آقا سے مراجعت کو تیار نہیں۔
اس قانونِ 'آزادی' کے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے سے لے کر منظوری تک جو کچھ بحثیں و تقاریر ہوئیں ان کو جاننا اور سمجھنا آج کے نوجوانوں کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اپنے اقتدار اور اپنی طاقت کو باقی رکھنے کے لیے جو بیانیہ اور تعصب و تفاخر دیسی و بدیسی حکمرانوں نے پھیلایا ہے، اس کا شافی علاج یہ ہے کہ اصل دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ 1937 سے 1946 کے 9 برسوں میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اتھل پتھل نے سیاست کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اگر آپ کی نظر اس دور میں برطانیہ، روس، چین، جاپان، جرمنی، فرانس اور امریکا پر بھی ہو، تو آپ کو اس سیاسی اتھل پتھل کی زیادہ سمجھ آجاتی ہے۔
وہ کون سا دباؤ تھا جس کی وجہ سے فرانس و برطانیہ کو نوآبادیاں خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جرمنی و جاپان کو شکستیں ہوئیں اور جاپان مخالف چین آگے بڑھا اور مشرقِ بعید (فار ایسٹ) نے نئی دنیا میں قدم رکھا؟
آل انڈیا مسلم لیگ اکتوبر 1937 کے سکندر جناح معاہدے اور شیرِ بنگال اے کے فضل الحق کی مسلم لیگ میں شمولیت (1938) کے بعد عملاً ایک عوامی جماعت بننے کی طرف گامزن ہوگئی تھی۔ بنگال و پنجاب وہ دو بڑے صوبے تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی تھی مگر معاہدہءِ لکھنؤ (1916) کی وجہ سے ان کی اکثریت کو زبردستی کم کیا ہوا تھا۔
23 مارچ 1940 کو جب شہرِ لاہور میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی تو اس جدوجہد کا سنگ میل نصب کردیا گیا جس کی منزل پاکستان ٹھہری۔ دسمبر 1945 کے انتخابات اس جدوجہد پر مہر تھے۔ مسلم لیگ نے سندھ، بنگال اور پنجاب میں ہی کامیابی حاصل نہ کی بلکہ صوبہ سرحد میں بھی 50 میں سے 17 نشستیں جیتیں اور مسلم اقلیتی صوبوں میں بھی مکمل حمایت حاصل کی۔
انگریزوں نے انتخابات کے بعد تقسیمِ ہند کو مؤخر کرنے کے لیے کیبنٹ مشن پلان بھی دیا جو کمزور مرکز اور مضبوط صوبوں کی علامت تھا۔ زیرک قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے قبول کر کے یہ ثابت کردیا کہ وہ علیحدگی پسند نہیں بلکہ مسئلوں کو حل کرنا چاہتے ہیں، مگر کانگریس نے اس منصوبے کو مسترد کر کے یہ بتا دیا کہ کانگریس مضبوط مرکز کی حامی ہے۔
اس منصوبے کی ناکامی کے بطن سے 3 جون کے معاہدے نے جنم لیا جس پر نہ صرف کانگریس و مسلم لیگ کے لیڈروں نے بادل نخواستہ دستخط کیے بلکہ کمیونسٹ پارٹی اور جمعیتِ علمائے ہند سمیت کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی۔ اس 3 جون کے منصوبے کو سامنے رکھ کر ہی آزادی ایکٹ 1947 تیار کیا گیا۔
اس ایکٹ کو پڑھنے سے یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ جب پنجاب و بنگال کو تقسیم کرنے کی بات ہوئی تو کیوں اس تقسیم کو مذہبی منافرت سے الگ رکھنے کے بارے میں غور نہ کیا گیا؟ برٹش اسمبلی میں وہ کون تھے جنہوں نے اسے مذہبی رنگ دینے کا پہلے سے فیصلہ کیا ہوا تھا۔ خصوصی طور پر پنجاب میں مسلم و غیر مسلم آبادی کا مکمل انخلاء اک ایسا المیہ ہے جس کے بارے میں آج بھی مؤرخ برٹش اسمبلی کے اعلیٰ اذہان سے سوال کرتا نظر آتا ہے۔
پنجاب کو تقسیم کرنے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا گیا اور پھر اس کا موازنہ پنجابی مسلمانوں سے کیا گیا جو بذات خود بدنیتی کا بڑا ثبوت ہے۔ اگر یہ مذہبی تقسیم تھی تو بھر سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ رکھ کر موازنہ کیا جاتا۔ ایسا کیوں نہ کیا اس بارے میں بھی جانیں گے۔ اس مضمون میں یہ کوشش کی جائے گی کہ اس سوال پر بھی بات کی جائے۔
اس تحریر کے لیے میں نے جس کتاب سے مدد لی ہے وہ Indian Independence and British Parliament 1947 vol.1 ہے۔ اس کتاب کو نسیم احمد باجوہ نے مرتب کیا ہے۔ ایکٹ کی تحریر پڑھنے سے جو بات سب سے پہلے چونکا دیتی ہے وہ ہے اس ایکٹ کا ضمیمہ نمبر 2 کہ جس میں مغربی پنجاب کے اس نئے صوبے میں شامل ہونے والے ان اضلاع کے نام ہیں جو پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔