پاکستانی سینما میں حب الوطنی کی 70 سالہ تاریخ
برصغیر میں جب سے فلمیں بننے کی ابتدا ہوئی، اس وقت سے ایک موضوع سرفہرست رہا، جس کے تناظر میں ہر دور میں شاہکار فلمیں تخلیق ہوئیں، یہ موضوع اس منفرد محبت کا ہے، جس کا تعلق خطے کی آزادی سے تھا۔
پاکستانی سینما کا فکری پس منظر
تقسیم سے پہلے اور بعد میں مذہب، آزادی، حب الوطنی اور دفاع وطن کے تناظر میں بے شمار فلمیں بنائی گئیں اور ایسی فلموں کو شائقین نے بھی پسند کیا۔ افراد سے قوم بننے تک کے سفر میں درپیش مشکلات اور آزمائشوں کا ایک عکس ان فلموں میں بھی ملتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کی فلموں کا موضوع، آزادی کا حصول تھا، بعد از تقسیم بھی کچھ عرصے تک یہ موضوع فلمی منظرنامے پر چھایا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد حب الوطنی اور ملک وقوم کے دفاع کا موضوع پاکستانی سینما کامحبوب موضوع بن گیا۔ ان تمام اقسام کی فلموں کے ساتھ ایک اور رنگ فلمی صنعت میں شامل رہا، یہ مذہب سے لگاؤ کا رنگ تھا، جس کے رنگ میں بھی بہت ساری فلمیں رنگی گئیں اور عوام نے ان کو پسند کیا۔ عہدِحاضر کے سینمامیں بھی مذہب اور وطن سے متعلق فلمیں تخلیق ہو رہی ہیں اور ان کی پسندیدگی کا تناسب کامیابی سے ہمکنار ہے۔ یوم آزادی کے اس خصوصی موقع پر خصوصی جائزہ یہاں رقم کیا جا رہا ہے، جس میں 1947 سے لے کر 2017 تک بننے والی فلموں میں مذہب سے لگاؤ، وطن سے محبت اور اس کے دفاع پر جتنی فلمیں بنائی گئی ہیں، ان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔
تاریخی ومذہبی فلموں کا دور
برصغیر میں بولتی فلموں کی تاریخ کا آغاز 1913 سے ہوتاہے۔ برصغیر کے فلمی سینما کی تاریخ میں پہلی اسلامی فلم’’نورجہاں‘‘ تھی، جسے 1923 میں بنایاگیا۔ تقسیم کے بعد جو تاریخی و مذہبی پس منظر کی فلمیں تخلیق ہوئیں، فلمی صحافت کے معروف لکھاری’’زخمی کانپوری‘‘ کے دیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ان فلموں کی نمائش کیے جانے کی ترتیب وتفصیل کچھ یوں ہے۔
نواب سراج الدولہ 1947
چنگیز خان 1958
رانی روپ متی باز بہادر 1960
عجب خان 1961
شہنشاہ جہانگیر 1968
شہید تیتو میر 1969
غرناطہ 1971
صلاح الدین ایوبی 1972
زرق خان 1973
ٹیپو سلطان 1977
حیدر علی 1978
محمد بن قاسم 1979
جنرل بخت خان 1979
زخمی کانپوری کاکہنا تھا۔ ’’تاریخی فلمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئیں، اس میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی فلمیں بنانے والے ہدایت کاروں میں سوائے مسعودپرویزاوراسلم ڈار کے سب ناتجربہ کارتھے۔‘‘ مگر اس بات سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ پاکستانی سینما کے نتائج کچھ اور کہانی بتاتے ہیں، یہ بات چند ایک فلموں کے لیے توکہی جاسکتی ہے،مگر مجموعی حیثیت میں اس طرز کی فلموں کو ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔
فرنگی استعمار کے خلاف بننے والی فلموں کا دور
دلچسپ بات یہ ہے، اسی فلمی صنعت میں پنجابی زبان میں فرنگی استعمار کے خلاف فلمیں بنائی گئیں اور انہیں بے حدکامیابی حاصل ہوئی۔ فلمی موضوعات پر تواتر سے لکھنے والے مصنف عبدالحفیظ ظفر کے مطابق ’’ہمارے ہاں برطانوی استعمار کے خلاف اعلیٰ درجے کی فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئیں، جنہیں کبھی نہیں بھلایاجاسکتا‘‘ ان فلموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے، فلمی شائقین کے لیے انگریزسے آزادی حاصل کرنے کا موضوع انتہائی پسندیدہ تھا۔ ان کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق ان فلموں کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ ۔ملنگی۔ 1965
نظام لوہار 1966
امام دین گوہاویا 1967
غلام 1973
جبرو 1977
برکت مجھیٹیا 1978
چن وریام 1981
وریام 1982
غلامی 1985
تقسیم ہند اور حب الوطنی پر بننے والی فلموں کا دور
برطانوی سامراج کے خلاف یہ فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور انہیں فلم بینوں نے بے حد پسند کیا۔اسی طرح مزید کئی اردو اور پنجابی زبان میں انگریزی سامراج اور حب الوطنی کے موضوع پر فلمیں بنائی گئیں، وطن سے دفاع کاپہلو بھی مدنظر رکھا گیا، ان میں سے کئی فلموں کووہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، جس کی وہ حقدار تھیں، مگر اس کے باوجود سینما کی اس موضوعاتی جدوجہد میں انہوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان فلم میگزین ، آن لائن پاکستانی فلموں کے بارے میں سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، اس کے بانی مظہراقبال کے اعداد و شمار کے مطابق، فلموں کی فہرست یہاں درج ذیل ہے۔
ہم وطن 1951
بیداری 1957