نقطہ نظر

قائدِ اعظم کا تصورِ پاکستان نفرت اور بگاڑ کا شکار کیوں ہوا؟

ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہشات کے مطابق قائم ہونے میں شاید ابھی مزید کئی دہائیاں لگیں۔

یہ ایک عظیم ترین رہنما کی ایک عظیم ترین تقریر ہے۔ آج سے 70 برس قبل، قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور دستور ساز اسمبلی کے پہلے منتخب صدر اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر تاریخی الفاظ کہے۔ "آپ آزاد ہیں؛ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے؛ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں یا پاکستان کی اس ریاست میں واقع کسی بھی دوسری عبادت گاہ جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق بھلے ہی کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔"

انہوں نے مزید فرمایا کہ، "ہم، ایک ایسے دور کی ابتدا کر رہے ہیں جہاں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا، جہاں برادریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا، جہاں ذاتوں اور عقیدوں کے درمیان امتیاز نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا ایک ہی بنیادی اصول ہوگا کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک ریاست کے برابر شہری ہیں۔"

70 برس گزر جانے کے بعد بھی ملکی تخلیق کے بارے میں قائدِ اعظم کا وژن اور متعین کردہ سمت حقیقت کا روپ نہیں لے سکی ہے۔ بلاشبہ، یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ یہ قوم ان کے اس نظریے سے کہیں زیادہ دور بھٹک چکی ہے۔ بابائے قوم نے خبردار کیا تھا کہ، "حکومت کی پہلی ذمہ داری امن و امان قائم کرنا ہے، تاکہ ریاست کی جانب سے عوام کی زندگیوں، ملکیت اور مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔" لیکن سماج نے خود کو انتہاپسندی اور نفرتوں کے جال میں پھنسا دیا۔

سب سے غلط بات یہ ہوئی کہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز رکھنے والی سیکیولر، آئینی جمہوری ریاست کا قائد اعظم کا تصور بھی نفرت اور بگاڑ کا شکار بنا۔ سیاست میں موجود بڑے حلقے ’سیکیولر’ کو شجرِ ممنوعہ تصور کرتے ہیں۔

جبکہ جمہوریت، کو بھی معنی خیز انداز میں قبول کرنا باقی ہے، اس کے ساتھ ان منتخب حکومتوں کو بھی جو ہمیشہ غیر جمہوری دباؤ اور حملے کی زد میں رہتی ہیں۔ آج اگر قائد اعظم ایک دوسرے سبکدوش وزیر اعظم کو ایک بار پھر سیاسی منظر نامے میں پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی اور افراتفری کی فضا کے درمیان جی ٹی روڈ پر رواں دواں دیکھتے تو کیا سوچتے؟

یقیناً، جس طرح قائد اعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں زور دیا تھا، ملک کے اپنے بنیادی نظریات سے ہٹ جانے اور ہنگامہ خیزی کی ذمہ داری سیاسی طبقے پر بھی عائد ہوتی ہے۔ رشوت خوری اور بدعنوانی، کالا دھندا، اقرباء پروری اور بے ایمانی — وہ تمام برائیاں ہیں جنہیں قائد اعظم نے سویلین اختیار کے زیر انتظام جمہوری، مساوی اور منصفانہ معاشرے کی راہ میں بنیادی رکاوٹیں قرار دیا تھا۔

بنیادی سماجی عدم مساوات کو ختم نہ کرنے میں ناکامی جمہوریت کے خلاف جرائم کے برابر ہے جس کا سامنا اس ملک نے کیا ہے۔ شاید ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہشات کے مطابق قائم ہونے میں ابھی مزید کئی دہائیاں لگیں۔

یہ اداریہ 11 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ