پاکستان

پاکستان کے نامور سائنسدان

وہ سائنسدان جن کی خدمات کی وجہ سے ایک نوزائیدہ ملک دنیا میں ترقی، تعلیم، روشن خیالی، سائنس و علم کا مثال بن کر ابھرا۔

پاکستان کے نامور سائنسدان

صادقہ خان


رواں برس 14 اگست کو قوم آزادی کا 70 واں جشن منارہی ہے، ان 70 برسوں میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح وطنِ عزیز نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بہت سے سنگِ میل عبور کیے۔

ایک نوزائیدہ مملکت جس کے پاس نہ تو مناسب انفراسٹرکچر تھا اور نہ ہی وسائل ،آج اس کا شمار عالمِ اسلام کی پہلی اور مجموعی طور پر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت میں کیا جاتا ہے۔

اس دوران ہم نے طب، کیمیاء، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی غرض یہ کہ سائنس کے ہر شعبے میں قابل ذکر ترقی کی، جس کا سہرا پاکستان کے اُن نامور فرزندوں کے سر جاتا ہے جنھوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات سرانجام دے کرملک و قوم کا نام روشن کیا۔

آئیے آج آپ کو ایسے ہی چند نامور پاکستانی سائنسدانوں سے متعارف کرواتے ہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی—فائل فوٹو

19 اکتوبر 1897 کو لکھنؤ ( برٹش انڈیا ) میں پیدا ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اُن چند افراد میں شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج میں قابلِ قدر کردار ادا کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹر صدیقی نے 1927 میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے کیمیاء میں پی ایچ ڈی کیا، وہ کافی عرصے تک طبیہ کالج دہلی اور انڈین کاؤنسل آف سائنٹیفک ریسرچ سے وابستہ رہے۔

1961 میں انھیں پاکستان کاؤنسل آف سائنٹیفک ریسرچ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، اسی برس ڈاکٹر صدیقی کو رائل سوسائٹی لندن کی فیلو شپ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا، ان کا شمار ابتدائی ادوار کے اُن سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے سائنسی تعلیم کو عام کرنے کے لیے غیر معمولی خدمات سر انجام دیں اور ان ہی کی کوششوں سے حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ کراچی یونیورسٹی اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کا قیام عمل میں آیا۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی تحقیقات کا مرکز قدرتی مرکبات کی کیمیاء تھا، جن پر انہوں نے 300 ریسرچ پیپرز تحریر کیے، جو معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے اور فارما کولوجی (ادوایات کی تیاری) میں ایک انقلاب برپا کرنے کا سبب بنے، یوں جنوبی ایشیاء میں کثرت سے اُگنے والے پودوں کو دواؤں کی تیاری میں استعمال کیا جانے لگا، جن میں ’نیم ‘، ’راؤل فیا‘ (ایک انڈین پودے کی جڑ) اور دیگر نباتات شامل ہیں، جو آج دنیا بھر میں دماغی انتشار اور دل کے امراض کے شافی علاج کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

سائنس کی ترویج اور شعبۂ کیمیاء میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس، ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اور تمغۂ پاکستان سے نوازا، ان کا انتقال 1994 کو کراچی میں ہوا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

فائل فوٹو

ہندوستان کے شہر بھوپال میں ایک اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئےـ

عبد القدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز" کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔

بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

عبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں ـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ

عبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔

مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی اور حکومتی اجازت کے بعد چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کئے گئےـ

پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔

انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔

ڈاکٹر منیر احمد خان

ڈاکٹر منیر احمد خان—فائل فوٹو

ڈاکٹر منیراحمد خان 26 مئی کو ضلع قصور میں پیدا ہوئے، ان کا شمار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدانوں میں کیا جاتا ہے، جن کی اَن تھک محنت کی بدولت ہمارا وطن دنیا کے نقشے پر پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا۔

نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے نیوکلیئر انرجی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر منیر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوئے اور تقریباً 40 برس تک اس کے سائنٹیفک اسٹاف ممبر اور بورڈ آف گورنرز کے رکن کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔

1972 میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کے جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں کے جنون کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر منیر احمد خان کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا، تاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مؤثر بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکے۔

آج نوجوان نسل میں بہت کم لوگ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ابتدائی دور میں یورینیئم کے بجائے پلوٹونیم کو ایٹمی ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور ڈاکٹر منیر احمد خان نے 1974 سے 1976 تک فرانس سمیت چند دیگر ممالک سے اس سلسلے میں کچھ معاہدات بھی کیے، مگر چند غیر ملکی سازشوں کے باعث وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکے اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بم پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا، جو یورینیئم افزودگی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

ڈاکٹر منیر بدستور اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ رہے اور اپنی تمام تر توجہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج پر مرکوز رکھی، ان ہی کی کوششوں سے نتھیا گلی میں انٹرنیشنل سمر کالج آف فزکس اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسز کا قیام ممکن ہوا، اس کے علاوہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری، خوشاب ون اور کراچی نیوکلیئر پاور ٹریننگ سینٹر جیسے عظیم الشان منصوبے بھی ڈاکٹر منیر خان کی سرکردگی میں پایۂ تکمیل کو پہنچے، جہاں نیوکلیئر انجینئرز اور سائنسدانوں کی تربیت کا مکمل انتظام کیا گیا۔

پاکستان کے میزائل پروگرام میں بنیادی کردارادا کرنے والے نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے، ڈاکٹر منیر کی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز جیسے اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا، ان کا انتقال 1999 میں آسٹریا میں ہوا۔

ڈاکٹر وڈل شاہ بخاری

ڈاکٹر وڈل شاہ بخاری—فائل فوٹو

ڈاکٹر وڈل شاہ بخاری ان خوش قسمت ترین افراد میں شامل ہیں جو سندھ کے ایک غیر معروف قصبے ’امین لاکھو‘ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیتیوں اور قابلیت کی بنا پر کامیابی کی سیڑھیاں بتدریج چڑھتے گئے۔

1963 میں سندھ یونیورسٹی سے نامیاتی کیمیاء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کرنے کے فوراَ بعد وہ لیکچرر تعینات ہوئے اور پھر اس نوجوان سائنسدان نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، انہوں نے 1967 میں ایمپیریل کالج لندن سے محض 6 ماہ کی مختصر مدت میں پی ایچ ڈی مکمل کیا اور وطن واپس لوٹنے کے بعد صوبہ سندھ میں سائنس اور کیمیاء کی ترویج کے لیے قلیل عرصے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔

ڈاکٹر وڈل شاہ صرف 32 برس کی عمر میں 5 کتابوں اور 6 ریسرچ پیپرز تصنیف کرنے کے ساتھ متعدد سائنسی کتب کے تراجم بھی کرچکے تھے، ان کے ریسرچ پیپرز معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوتے رہے، جس سے بین الاقوامی سطح پر ان کی پہچان بنی اور یوں بیرون ملک تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے وہ پاکستان میں سائنس کی ترویج کے لیے فنڈز جمع کرتے رہے، جس کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ کیمیاء کی لیبارٹری میں تحقیق کی سہولیات دستیاب ہوئیں اور محض 3 برس میں ان کی سربراہی میں پانچ طلباء نے پی ایچ ڈی کیا۔

وہ نواب شاہ اور سندھ کے دوسرے اضلاع میں انٹرنیشنل سائنس کانفرسز کا انعقاد کراتے رہے اور ان ہی کی کوششوں سے سندھ کے پہلے ماہانہ سائنس جنرل کی اشاعت ممکن ہوئی، ان کی تحقیقات کا مرکز ’قدرتی مرکبات کی کیمیاء‘ تھا، جس کا ادویات اور امراض کے علاج سے گہرا تعلق ہے۔

قدرت اگر انہیں مزید زندگی عطا کرتی تو آج پاکستان نامیاتی کیمیاء میں ’سینٹر آف ایکسی لینس‘ کے درجے کا حامل ہوتا، مگر بد قسمتی سے ہمارا یہ انتہائی با صلاحیت سائنسدان صرف 36 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

وفات کے وقت ڈاکٹر وڈل شاہ کی سربراہی میں 11 طلباء پی ایچ ڈی کررہے تھے اور پاکستان میں مناسب تحقیقی سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ ناروے میں مقالات پر تحقیق مکمل کرکے چند دن میں وطن واپس لوٹنے کو تھے کہ 16 دسمبر 1975 کو پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔شعبۂ کیمیاء میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2012 میں انہیں پاکستان کے دوسرے بڑے سول ایوارڈ ’ستارۂ امتیاز‘ سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر ایوب خان امیہ

ڈاکٹر ایوب خان امیہ—فائل فوٹو

ڈاکٹر ایوب خان امیہ 1930 میں راوالپنڈی میں پیدا ہوئے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ان کی زندگی کا بیشتر حصہ امریکا میں گزرا، بلاشبہ ان کا شمار پاکستان کے اُن نامور فرزندوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کیا۔

ڈاکٹرایوب خان امیہ ایک خوش باش اور ہنس مکھ نیورو سرجن اور برین انجریز (اندرونی دماغی چوٹوں) کے ماہر تھے، انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بائیو کیمسٹری میں گریجویشن کرنے کے بعد، نف فیلڈ کالج آف سرجیکل سائنسز لندن سے نیورو سرجری کی ٹریننگ حاصل کی اور 1980 میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکا سے بحیثیت اسٹاف منسلک ہوئے، ساتھ ہی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں 2003 تک کلینکل پروفیسر کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔

دماغی امراض اور سرطان پر اپنی تحقیق کے دوران ڈاکٹر ایوب خان امیہ نے ٹیومر (رسولی) کے خاتمے کے لیے ایک آلہ ایجاد کیا، جسے ’امیہ ریزروائر‘ کہا جاتا ہے،اس کی بدولت برین ٹیومرکاعلاج بذریعہ کیموتھراپی ممکن ہوا، جوایک انقلابی تکنیک ثا بت ہوئی اور مستقبل میں اس طرز پر لا تعداد طبی آلات بنائے گئے، یعنی یہ آلہ بہت سی ایجادات کے لیے نمونہ ثابت ہوا۔

ڈاکٹر ایوب خان امیہ نے سر پر لگنےوالی حاد ثاتی چوٹوں پر بہت سی تھیوریز بھی پیش کیں، جن میں ٹرامیٹک تھیوری قابل ذکر ہے، جس کا تعلق چوٹ لگنے کے بعد انسانی سوچ و جذبات میں آنے والی تبدیلیوں اور مذہبی شدت پسندی سے ہے، ان کے تحریرکردہ 200 سے زائد آرٹیکلز معروف سائنس جنرلز میں شائع ہوئے، اس نامورنیورو سرجن کا انتقال 11 جولائی 2008 کواسلام آباد میں الزائمر کے باعث ہوا۔

ڈاکٹرعطا الرحمٰن

ڈاکٹرعطا الرحمٰن—فائل فوٹو

22 ستمبر 1942 کو برٹش انڈیا میں جنم لینے والے ڈاکٹرعطا الرحمٰن نے 1963 میں کراچی یونیورسٹی سے نامیاتی کیمیاء میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1968 میں کنگ کالج کیمبرج یونیورسٹی سے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کیا،ان کی بے پناہ قابلیت اوراعلیٰ صلاحیتوں پر انہیں دنیا کی نامور ترین یونیورسٹیز کی جانب سے اعزازی ڈگریوں سے نوازا جا چکا ہے، جن میں کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف سائنس، کووینٹری یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف ایجوکیشن، بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف سائنس اور ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ڈاکٹوریٹ آف فلاسفی کی ڈگریاں شامل ہیں۔

اس ذہین اور با صلاحیت سائنسدان کا جتنا شاندار تعلیمی ریکارڈ رہا، عملی میدان میں اس کی فتوحات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں، ڈاکٹرعطاء الرحمٰن کو رائل سوسائٹی آف لندن کی فیلو شپ کا اعزاز حاصل ہے۔

2 برس تک وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ایجوکیشن کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دینے کے بعد وہ 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین منتخب ہوئے اور 2008 تک پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیےانقلابی اقدامات سر انجام دیے، جنھیں سراہتے ہوئے انہیں ’انرگو ایکسی لینس ایوارڈ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے اعزاز سے نوازتے ہوئے 50 لاکھ کی خطیر رقم انعام میں دی گئی۔

بہت سے دیگر اعلیٰ اعزازات کے علاوہ وہ اسلامی ممالک کے نیٹ ورک آف اکیڈیمیز آف سائنس، ورلڈ ڈیویلپنگ کاؤنسل، کورین اکیڈمی آف سائنس اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے صدر بھی ہیں اور ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری، پنجوانی سینٹر آف مالیکیولر بائیولوجی اینڈ ڈرگ ڈیویلپمنٹ کراچی یونیورسٹی کے کوچیئرمین کے طور پر بھی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔

اس باہمت اورغیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل سائنسدان کو اس کی بے پناہ خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان اب تک چاروں بڑے سول ایوارڈز سے نواز چکی ہے اور ان کی فتوحات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی

ڈاکٹر احمد حسن دانی—فائل فوٹو

معروف تاریخ دان، ماہرلسانیات و آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی 20 جون 1920 کو بسنہ (برٹش انڈیا) میں پیدا ہوئے، انہیں وسطی اور جنوبی ایشیاء کے آثارِ قدیمہ پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے پہلے مسلم گریجویٹ کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے یہاں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر مسلم کش پالیسیز کے باعث ناکام ہونے کے بعد انہوں نے موہن جو دڑو اور ٹیکسلا پر تحقیق کا آغاز کیا، جسے دیکھتے ہوئے برٹش حکومت نے انہیں تاج محل آگرہ میں آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں تعینات کردیا۔

ڈاکٹر حسن دانی نے یونیورسٹی کالج لندن کے آرکیالوجی انسٹی ٹیوٹ سے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے راج شاہی میوزیم کی تجدید نو کی، وہ ایشیاٹک سوسائٹی آف پاکستان میں 12 برس تک جنرل سیکرٹری رہے اور ہڑپہ، موئن جو دڑو اور ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ پر بھرپور تحقیق کے علاوہ پشاوراور سوات میں گندھارا تہذیب کی دریافت میں مرکزی کردارادا کیا، جسے سراہتے ہوئے 1979میں حکومت پاکستان نے انہیں آرکیالوجی اینڈ ہسٹوریکل ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا۔

1962 سے 1971 تک پشاور یونیورسٹی میں آرکیالوجی پڑھاتے رہے اور لاہور و پشاور میوزیمز کی تجدید نو کروائی، کچھ عرصے بعد وہ اسلام آباد یونیورسٹی (موجودہ قائداعظم یونیورسٹی) میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین مقرر کیے گئے۔

1992 میں ڈاکٹر دانی کو منسٹری آف کلچر میں آثار قدیمہ کے ایڈوائزر کے طور پر تعینات کیا گیا، وہ 1994 سے 1998 تک نیشنل فنڈز آف کلچرل ہیریٹیج کے صدر اور ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن کے تاحیات اعزازی ڈائریکٹر بھی مقرر کیے گئے، آثارقدیمہ پر تحقیقات کے دوران انہیں نامور بین الاقوامی سائندانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں ہیڈل برگ اکیڈیمی آف سائنسز اور یونیسکو کی انٹرنیشنل سائنٹیفک ٹیم بھی شامل تھی۔

انہیں 30 سے زائد زبانوں پر مکمل عبور تھا، جن پر انہوں نے 30 کتابیں اور سیکڑوں ریسرچ پیپر لکھے، ان کی نمایاں خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں یونیسکو نے ارسطو ایوارڈ، حکومت جرمنی نے آرڈر آف میرٹ، حکومت اٹلی نے نائٹ کمانڈر، حکومت فرانس نے پالمز ایوارڈ اور حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیازاور ہلال امتیاز سے نوازا، اس عظیم محقق اور سائنسدان کا انتقال جنوری 2009 میں اسلام آباد میں ہوا۔

ڈاکٹر نوید سید

ڈاکٹر نوید سید —فائل فوٹو

ڈاکٹر نوید سید کینیڈین نژاد پاکستانی نیورو سرجن ہیں، انہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے دنیا کو بدل دینے والا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر نوید نے بایومیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن اور پھر لیڈز یونیورسٹی سے نیورو سرجری میں پی ایچ ڈی کیا، وہ طویل عرصے سے کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں کیلگری یو نیورسٹی کے برین انسٹی ٹیوٹ میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر نوید نے کینیڈین اور جرمن ٹیموں کے ساتھ انسانی دماغ کے میکینزم ، دماغی خلیات ’نیورانز‘ کی مسلسل جنریشن اور اُن کے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے براہ راست تعلق پر تحقیق کرتے ہوئے انسانی دماغی خلیات کو سیلیکون چِپ پر اس طرح گرو نمو کیا ہے کہ اس چپ کے نیورانز دماغی خلیات سے اور دماغی خلیات ان نیورانز سے باآسانی رابطہ اور باتیں کر سکتے ہیں، اس بایونک چِپ کے ذریعے انسانی افعال کو کسی حد تک کنٹرول کرنا ممکن ہوا اور اب تک کی تحقیق کے مطابق نشے کی لت اور رعشہ جیسی اعصابی بیماریوں کا علاج اس سے کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر نوید کی اس ایجاد نے نہ صرف شعبۂ طب بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اور ہر طلوع ہوتے سورج کے ساتھ نئی، حیران کن اور انوکھی ایجادات سامنے آرہی ہیں مگر پھر بھی سائنسدان اب تک انسانی دماغ کے اصل میکینزم پر سے مکمل طور پر پردہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

ڈاکٹر نوید نیورو سائنسز پر 120 سے زائد ریسرچ پیپرز تحریر کر چکے ہیں جو معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوئے، ان کی غیر معمولی صلاحیتوں پر انہیں البرٹا ہیریٹیج فاؤنڈیشن میڈیکل ریسرچ ایوارڈ، کینیڈین-پاکستان کمبائنڈ بایو میڈیکل ریسرچ، کینیڈین سینسیشن ایوارڈز اور رائل کالج آف فزیشن ایڈن برگ کی اعزازی فیلو شپ سے نوازا جا چکا ہے۔

ڈاکٹرعمر سیف

ڈاکٹرعمر سیف—فائل فوٹو

ڈاکٹر عمر سیف کا شمار ان چند افراد میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے وطنِ عزیز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کی ترقی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے بیچلر کرنے کے بعد انہوں نے 2001 میں 23 برس کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی جبکہ پوسٹ ڈاکٹورل ایم آئی ٹی سے کیا، وہ کیمبرج یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی تھے، انہیں 2013 میں ہارورڈ کینیڈی اسکول سے گلوبل لیڈر شپ اور پبلک پالیسی میں خصوصی تعلیم حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔

ایم آئی ٹی میں وہ مسلسل 4 برس تک کمپیوٹرسائنس اورآرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری میں محقق سائنسدان کے طور پر پڑھاتے رہے اور اس دوران یو ایس ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے 50 لاکھ ڈالر کے منصوبے ’پراجیکٹ آکسیجن‘ کا بھی حصہ رہے، جس کا مقصد مستقبل کی کمپیوٹر ٹیکنالوجیز بنانا تھا۔

2008 میں ڈاکٹر عمر کو انٹرنیشنل الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرنگ ایسوسی ایشن کی طرف سے بیسٹ پیپرایوارڈ، مائیکرو سوفٹ کی طرف سے ڈیجیٹل انکلوژن ایوارڈ اور مارک ویزر ایوارڈ سے نوازا گیا، ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 2010 میں ورلڈ اکنامکس فورم نے انہیں ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا۔

2011 میں ایم آئی ٹی ریویو کی جانب سے ڈاکٹر عمرکو دنیا بھر سے ایسے 35 نوجوان افراد میں شمار کیا گیا، جو آئی ٹی کے میدان میں نئی جہت متعارف کروانے میں سب سے آگے ہیں، 2013 میں ڈاکٹر عمر کو پنجاب یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وائس چانسلر منتخب کیا گیا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص آپریٹنگ سسٹمز، موبائل سسٹمز اور ہائی اسپیڈ راؤٹنگ آرکیٹیکچر میں ان کی تحقیقات اورخدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں گوگل، مائیکرو سوفٹ، کیمبرج ایم آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ، آکسیجن کنسیورشم، ورلڈ بینک اور ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھرپور سہولیات اور گرانٹ دی جاتی رہی ہیں، جن کی بدولت وہ اندرونِ ملک آئی ٹی سیکٹر کو فعال کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

فی الوقت وہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں پبلک سیکٹر کے تمام آئی ٹی منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں اور اب تک تعلیم و صحت کے علاوہ پولیس اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے نئی تکنیکس متعارف کروا چکے ہیں۔

ان بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کے ایڈیٹر اِن چیف بھی ہیں، ڈاکٹر عمرسیف کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ایم آئی ٹی ٹیکنو ویئر،آئی ڈی جی ٹیکنالوجی ایوارڈز اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر نرگس ماول والا

ڈاکٹر نرگس ماول والا—فائل فوٹو

ڈاکٹر نرگس ماول والا امریکی نژاد پاکستانی ماہر فلکیاتی طبیعات ہیں، جن کی پیدائش لاہور میں ہوئی، انہوں نے کراچی کے سینٹ جوزف کانونٹ سکول سے اے اور او لیول کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا کا رخ کیا اور تب سے وہ وہیں رہائش پزیر ہیں۔

ڈاکٹر نرگس نے ایم آئی ٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا، وہ کافی عرصے تک کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بطور محقق سائنسدان کام کرتی رہیں، جہاں ان کی تحقیقات کا مرکز گریوی ٹیشنل ویوز آبزرویٹری (لیگو) کے لیے ایسے آلات (انٹرفیرومیٹرک ویوز ڈیٹیکٹر) کی تیاری تھا، جن کے ذریعے ان موجوں کا باآسانی مشاہدہ کیا جاسکے، اس کے ساتھ وہ ایم آئی ٹی میں درس و تدریس سے وابستہ رہیں اور فی الوقت یہاں ڈپارٹمنٹ آف فزکس کی ایسوسی ایٹ ہیڈ کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔

گریوی ٹیشنل ویوز آبزرویٹری (لیگو) میں تحقیق کے دوران ڈاکٹر ماول والا نے اپنی ٹیم کے ساتھ آپس میں مدغم ہوجانے والے دو بلیک ہولز سے خارج ہونے والی شعاؤں کا مشاہدہ کرتے ہوئے 100 برس پرانے آئن اسٹائن کے نظریئے کی تصدیق کی، ان بلیک ہولز کا ماس سورج سے 30 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین سے ایک اعشاریہ تین ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔

اس مقصد کے لیے ایک بہت بڑے سائز کا لیزر ڈیٹیکٹر استعمال کیا گیا، یہ فلکیات کے میدان میں ایک انقلابی تحقیق ثابت ہوئی اور اس نے نہ صرف کائنات کے بارے میں سائنسدانوں کے تصور کو ایک نیا رخ دیا، بلکہ کائنات کی ابتدا کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے میں بھی معاونت کی۔

پاکستان کے لیے یہ امر قابل فخر رہا کہ اس تاریخ ساز تحقیق میں ڈاکٹر نرگس کے علاوہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان باصلاحیت ماہرِ طبیعات عمران خان نے بھی ایک مؤثر کردار ادا کیا، جو فی الوقت گران ساسو انسٹی ٹیوٹ اٹلی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نرگس نے لیگو پراجیکٹ سے متعلق کئی دیگر تکنیکی مسائل کو حل کرنے میں بھی بنیا دی کردار ادا کیا جن میں لیزر کولنگ اور کوانٹم سٹیٹ آف لائٹ شامل ہیں، آسٹرو فزکس میں ان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں انہیں میک آرتھر فاؤنڈیشن اور جوزف ایف کیتھلی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔

ڈاکٹرآبن مارکر کیبراجی (Aban Marker Kabraji)

ڈاکٹرآبن مارکر کیبراجی —فائل فوٹو

12 مارچ 1953 کو ممبئی کی ایک پارسی فیملی میں جنم لینے والی ڈاکٹر کیبراجی کا شمار پاکستان کی اُن چند خواتین میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے دنیا بھر میں نہ صرف ملک وقوم کا نام روشن کیا بلکہ وہ مشرقی خواتین کے لیے رول ماڈل بھی ہیں۔

وہ فی الوقت قدرتی حیات کی بقاء کی انٹرنیشنل یونین کی ریجنل ڈائریکٹر کے طور پر خد مات سر انجام دے رہی ہیں، جو 11 ممالک کے دفاتر پر مشتمل ہے اور وہاں ماحولیات سے متعلق 70 سے زائد امور کی نگرانی کرنے کے علاوہ وہاں کے باشندوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہتر بنانے میں بھی مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔

ڈاکٹر آبن مارکر کیبراجی اس تنظیم سے 1988 سے وابستہ ہیں اور بہت سے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ گلوبل کنونشنز کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں، جن میں ’ویٹ لینڈ‘ کنونشن قابل ذکر ہے، وہ جنگلی حیات، ایکو سسٹم اور ماحولیات کی حفاظت کے نیٹ ورک کی سر گرم رکن ہیں، اپنے کیریئر کی ابتدا ہی سے ایکو سسٹم اور ایسے جانوروں کی نسل کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں جو کثرتِ شکار یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

وہ وائلڈ لائف ٹریڈ مانیٹرنگ کی کوچیئر پرسن کی نامزدگی بھی حاصل کر چکی ہیں، اتنی بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ یہ ذہین اورباہمت خاتون طویل عرصے سے درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں اور ییل یونیورسٹی کے فارسٹری (جنگلات) اور انوائرمنٹ (ماحولیات) کے اسکول کی بورڈ آف گورنرز کی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں لیکچرز بھی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر کیبراجی کو اقوام متحدہ کے ریجنل ڈیویلپمنٹ سینٹر کی ایڈوائزری کمیٹی کی رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کیبراجی جنوبی ایشیا میں خواتین کے حقوق کی زبردست علم بردار سمجھی جاتی ہیں اور مؤقر انگریزی اخبارات و جرائد میں معاشرتی تفاوت اور جنسی عدم مساوات (جینڈر اِن ایکویلیٹی) پر کالمز بھی لکھتی ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی—فائل فوٹو

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی 11 جولائی 1950 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ایم آئی ٹی میں 9 برس تک زیرِ تعلیم رہے اور ڈبل بیچلرز کرنے بعد نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی بھی یہیں سے کیا، ان کی تحقیقات کا مرکز پارٹیکل فزکس اور کوانٹم فیلڈ تھیوری رہا، انہوں نے انٹرنیشنل سینٹر آف تھیوریٹیکل فزکس میں شمولیت اختیار کرکے دنیا کے نامور سائنسدانوں کے ساتھ خاصا وقت گزارا۔

1973 میں وطن واپسی کے بعد وہ لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پڑھانے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ ہوئے اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے شعبۂ فزکس کے سربراہ مقرر ہوئے، ڈاکٹرعبدالسلام سے دیرینہ دوستی کے باعث ڈاکٹر پرویز پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اسرارورموز سے پوری طرح آگاہ تھے اور مختلف مواقع پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان سازشوں کا مؤثر جواب دیتے رہے، جو ہمیشہ سے ہمارے ایٹمی پروگرام کے تعاقب میں رہی ہیں۔

پرویز ہود بھائی کا سب سے بڑا کارنامہ ’نیشنل سینٹر آف فزکس‘ کا قیام ہے، جس کا مقصد ملک میں سائنسی سوچ وفکر کو عام کرنا تھا، وہ انٹرنیشنل سائنٹیفک سوسائٹی اور رائل سوسائٹی آف لندن میں فیلڈ تھیوری، پارٹیکل فزکس اور فینو مینالوجی کے حوالے سے غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے لیکچرزآن لائن دستیاب ہیں، جب کہ اسٹرنگ تھیوری پر ان کی قابل قدر تحقیق پر انہیں نوبل پرائز کی نامزدگی بھی مل چکی ہے۔

اس نامور سائنسدان کا شمار پاکستان کے روشن خیال طبقے کے سب سے زیادہ متحرک، فعال، صاف گو اور بے باک افراد میں کیا جاتا ہے، جو سائنس وٹیکنالوجی کے علاوہ سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور ڈان، ایکسپریس ٹریبیون، نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر جریدوں میں کالمز لکھ کر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں، وہ پرنسٹن یونیورسٹی کے علاوہ نامور بین الا اقوامی یونیرسٹیز میں لیکچرز بھی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز پاکستان میں تعلیم نظام کی بہتری کے لیے ہمیشہ سے سرگرم رہے ہیں اور متعدد کتابیں تصنیف کرنے کے علاوہ انہوں نے سائنسی کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے ’مشعل‘ کے نام سے اپنا پبلی کیشن ہاؤس بھی بنایا ہے، انہیں اب تک عبدالسلام اور یونیسکو کالنگا ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے، حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ستارۂ امتیاز دینے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اسے لینے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین

ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین—فائل فوٹو

ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون اسٹرنگ تھیورسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کنیئرڈ کالج لاہور سے فزکس میں گریجویشن کرنے والی ڈاکٹر تسنیم نے سٹوخوم یونیورسٹی اٹلی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹورل ہارورڈ یونیورسٹی سے محض 26 برس کی عمر میں کیا۔

ان کی تحقیقات کا مرکز 11 سمتوں والی تھیوری اور سپرگریویٹی تھا۔ جس پر ان کے ریسرچ پیپرز معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں، وہ ’ورلڈ ایئر آف فزکس‘ کانفرنس جرمنی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں، جس کا لوگو بنانے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔

2013 میں کیمبرج سائنس فیسٹیول میں انہیں دنیا کے نامور سائنسدانوں کی جانب سے مدعو کیا گیا، اس فیسٹیول کا مقصد دنیا بھر سے ابھرتے ہوئے سائنسدانوں کو متعارف کروانا اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا، ڈاکٹر تسنیم زہرہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں تھیوریٹیکل فزکس کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے نظریاتی طبیعات پرایک اینی میٹڈ سیریز بنا کر ہائی اسکول اور کالج اسٹوڈنٹس کو فراہم کی تاکہ وہ اس مشکل مضمون کو با آسانی سمجھ سکیں۔

ڈاکٹر تسنیم زہرہ بچپن سے ہی ایک بہترین رائٹر بھی ہیں، 2014 میں ان کا پہلا ناول ’اونلی دی لانگ تھریڈز‘ منظرعام پر آیا، جسے سائنسی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی، ڈاکٹر تسنیم کو انٹرنیشنل فزکس اولمپیڈ میں شرکت کے لیے پاکستانی ٹیم کی تربیت کرنے کا بھی موقع ملا۔

ملکی سطح پر مسلسل سر گرم رہنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تسنیم ہارورڈ میڈیکل اسکول اور نیشنل اکیڈیمی آف سائنسز کی رکن بھی ہیں، فزکس میں ان کی نمایاں خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں پولٹزر ایوارڈ اور وائس چانسلر گولڈ میڈل سے نوازا جا چکا ہے۔


صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں اور اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔ سائنس اور سائنس فکشن ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔