کراچی کو فراہم کیا جانے والا 91 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں
جنوری میں کراچی کی کچی آبادی 'شیریں جناح' کے ایک رہائشی محمّد ریاض نے پینے کے لیے بوتل کا پانی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ محمّد ریاض پانچ بچوں کے باپ اور پیشے کے اعتبار سے شوفر ہیں۔
اس سے ایک ماہ پہلے ایک اور رہائشی نے کئی حکومتی اداروں کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی، جس کے مطابق، ادارے "لوگوں کو پینے کا صاف پانی، صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ماحول فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن یہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی عہدہ دارانہ، قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں۔"
ریاض کی بائیس سالہ بیٹی، آسیہ اپنے شوہر اور تین ماہ کے بچے کے ساتھ برابر والے گھر میں رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ماہانہ 45,400 لیٹر ٹینکر کا پانی چار ہزار روپے (37 امریکی ڈالر) میں خریدا جاتا ہے۔
ٹینکر کمپنیاں جو پانی سپلائی کرتی تھیں ان میں کیا خرابی تھی؟ ان کی بہن رشیدہ نے بتایا کہ "اکثر، پانی میں کیڑے کلبلاتے نظر آتے۔ ململ کے باریک کپڑے سے چھاننے کے باوجود کچھ نہ کچھ پانی میں شامل ہو ہی جاتا تھا۔ اکثر ذائقہ بگڑا ہوا ہوتا یا پھر پانی کا رنگ گدلا ہوتا۔"
ریاض کا پورا گھرانہ بشمول ان کی اہلیہ شیریں جناح سے متصل کلفٹن کے متمول علاقے میں بطور گھریلو ملازم کام کرتے ہیں۔ اپنی ملازمتوں کی وجہ سے وہ پینے کے مہنگے پانی کے متحمل ہوسکتے ہیں، لیکن صرف اس صورت میں اگر پانی احتیاط سے استعمال کیا جائے۔
آسیہ کہتی ہیں، "انتہائی سخت گرمی میں بھی، ہم 200 روپے (1.80 امریکی ڈالر) کا 25 لیٹر پانی دو دن تک چلا لیتے۔" ان کے پڑوسیوں نے بھی اب فلٹرڈ پانی خریدنا شروع کر دیا ہے جو کہ "سیلڈ ہوتا ہے۔"
عدالتی راستہ
دسمبر 2016 میں درخواست کی سماعت پر سپریم کورٹ نے معاملے کی تفتیش کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔
کمیشن نے سپریم کورٹ کی خدمت میں ایک رپورٹ پیش کی جس کی روشنی میں عدالت نے کمیشن کی سفارشات کے مطابق ایک نو رکنی ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دیا۔
ان میں سے ایک حکم یہ تھا کہ "سندھ کے لوگوں کو مختلف وسائل بشمول دریاؤں، نہروں، ریورس اوسموسس پلانٹس، واٹر سپلائی اسکیمز سے جو پینے کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے، اس کے معیار کا معائنہ کیا جائے۔"
چند دن قبل ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے کہ سندھ کے 29 میں سے 14 اضلاع میں 83.5 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔