پاکستان

پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس:'جمائما سے لیا گیا قرض اثاثے کے طور پر لکھنا چاہیے تھا'

لیگی رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف جاری غیرملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آف شور کمپنی کو ظاہر نہ کرنا صداقت اور امانت کی تعریف میں نہیں آتا، جبکہ عمران خان نے ایک کروڑ 45 لاکھ روپے قرض لیا جسے اثاثے کے طور پر لکھنا چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔

آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں بینظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں 11 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ ہر جماعت آڈٹ کرانے کی پابند ہے، تحریک انصاف کا ذریعہ آمدن عطیات ہیں، پی ٹی آئی کو 2013 میں ساڑھے 40 کروڑ سے زائد عطیات ملے، لہذا پارٹی کے اثاثوں کے ذرائع کی چھان بین ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا، 'ممکن ہے پی ٹی آئی مقبول پارٹی ہو اور لوگ والہانہ انداز میں فنڈنگ کرتے ہوں'۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس: 'غلط سرٹیفکیٹ پر نااہل نہیں کرسکتے'

درخواست گزار کے وکیل کا عدالت سے مزید کہنا تھا کہ 'آخر میں یہ ہو گا کہ آپ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ دے دیں گے کہ انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا'۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے ان سے استفسار کیا کہ آپ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں کیا وہ اکاؤنٹس کی تفصیلات مرتب کرتی ہے؟

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات پوچھ کر عدالت کو بتاسکتے ہیں۔

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت پر نظریہ پاکستان، اسلامی نظریے کے خلاف کام کرنا ثابت ہو جائے تو سپریم کورٹ اس پر براہ راست فیصلہ دے سکتی ہے۔

اکرم شیخ نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ ممنوعہ فنڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے کیس الیکشن کمیشن کو بھیجے اور فیصلہ کرنے کے لیے ٹائم فریم بھی طے کرے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن بھیجنے کی تجویز

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سیکڑوں مقدمات کی سماعت کرتی ہے اور فیصلے سناتی ہے لہذا سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کی غیرملکی فنڈنگ سے متعلق بھی پالیسی واضح کرے۔

آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ

پی ٹی آئی چیئرمین کی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ پر دلائل دیتے ہوئے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لندن فلیٹ کی ملکیت ظاہر کی جبکہ حقیقت میں عمران خان لندن فلیٹ کے نہیں بلکہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے مالک تھے۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کمپنی کے شیئر ہولڈر نہیں تھے، وہ نہ تو کمپنی کے انتظامی امور سے وابستہ تھے اور نہ ہی ڈائریکٹر تھے، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کا اصل مالک کون ہے؟

حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کا فلیٹ 2003 میں 6 لاکھ 90 ہزار پاؤنڈز میں فروخت ہوا اور تمام رقم نیازی سروسز لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ '1 لاکھ 27 ہزار پاؤنڈ کی رقم این ایس ایل کے اکاؤنٹ میں بقایا رہی لیکن یہ رقم عمران خان کے بیان حلفی میں ظاہر نہیں ہوئی، انہیں 2 لاکھ 8 ہزار پاؤنڈز فلیٹ کا کرایہ بھی ملا'۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات مسترد کردیئے

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ 'این ایس ایل اتنا عرصہ رہی کیا مزید اثاثے اس میں آئے؟ اگر مزید اثاثے آئے تھے تو ان کی دستاویزات کہاں ہیں'۔

اکرم شیخ نے ججز کو آگاہ کیا کہ این ایس ایل کے اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'این ایس ایل 1983 سے 2015 تک قائم رہی جبکہ عدالت میں اکاؤنٹس کی تفصیلات صرف دو سال کی جمع کرائی گئیں'۔

اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عمران خان کی زندگی پر لکھی گئی ایک کتاب کے چند صفحات اپنی درخواست کے ساتھ جمع کرائے ہیں، کتاب میں لکھا گیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کا کیری پیکر سیریز کے لیے معاہدہ ہوا جس میں انہیں 25 ہزار آسٹریلین ڈالرز دیے گئے۔

تاہم چیف جسٹس نے کتاب کی صحت اور اس کے مصدقہ ہونے پر لاعلمی کا اظہار کردیا۔

چیف جسٹس نے وکیل اکرم شیخ سے سوال کیا کہ کیا عمران خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان سے منی لانڈرنگ کرکے بیرون ملک فلیٹ خریدا؟

جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ میرا یہ الزام نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اس کے ثبوت ہیں۔

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات پیش کیں، آف شور کمپنی کو ظاہر نہ کرنا صداقت اور امانت کی تعریف میں نہیں آتا لہذا عمران خان صادق اور امین نہیں۔

بنی گالا اراضی

بنی گالا جائیداد پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے حنیف عباسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 4 مرتبہ بنی گالا جائیداد سے متعلق اپنے بیان کو تبدیل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس:'ہر سیاسی جماعت نے حساب دینا ہے'

اکرم شیخ کے مطابق بنی گالا نامی تاج محل بنانے سے قبل جمائمہ پاکستان سے جانے کا فیصلہ کرچکی تھیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہوسکتا ہے جمائمہ حالات سے گھبرا کر پاکستان سے چلی گئی ہوں اور ممکن ہے وہ واپس آجائیں۔

جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ممکنات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔

حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ جمائما کا بیان ہے کہ ان کے نام پر بے نامی جائیداد خریدی گئی، بنی گالہ اراضی کا قبضہ اور اصل ملکیت عمران خان کی ہے، ٹیکس بچانے کے لیے اراضی جمائما کے نام خریدی گئی، عمران خان نے جمائما سے لیا گیا قرض بھی ظاہر نہیں کیا۔

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جمائما سے رقم آئی، ان کے نام زمین خریدی گئی، اس میں قرض کہاں سے آگیا۔

اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے 11 اپریل 2002 کو ایک کروڑ 45 لاکھ روپے قرض لیا جسے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا گیا، عمران خان کو قرض کی رقم کو اثاثے کے طور پر لکھنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا قرض کو ظاہر کرنا بھی ضروری ہے، جس پر اکرم شیخ نے کہا، 'انتخابی فارم کے صفحہ 7 پر ظاہر کرنا ضروری تھا'۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے بھائی سے 20 لاکھ روپے قرض لے اور کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرے تو کیا اس پر آرٹیکل 62 ایف ون لگے گا؟

جس پر اکرم شیخ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہل قرار دیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ بیٹے نے باپ کو تنخواہ دینی تھی، کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر 62 ایف ون لگادیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ عمومی بات نہ کریں پہلے اس فیصلے کو پڑھیں، پاناما کیس میں اثاثوں کا معاملہ تھا، یہاں قرض کی بات ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ نے قرض دیا جس سے انہوں نے بنی گالا جائیداد خریدی، بنی گالا جائیداد جمائمہ کے نام تھی وہ کیسے ظاہر کرتے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک میں میاں بیوی کی علیحدگی کے وقت اثاثے تقسیم ہوتے ہیں، بے نامی لکھ دینے سے جائیداد کی نوعیت بے نامی نہیں ہوجاتی۔

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد بنانے کا مقصد ٹیکس بچانا ہے، عمران خان نے اگر کوئی قرض لیا ہے تو اس کا اندراج بھی ہوگا، عمران خان کو قرض کی رقم کو اثاثے کے طور پر لکھنا چاہیے تھا۔

جس کے بعد درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا، جس پر حنیف عباسی نے درخواست کی کہ عدالت کیس کو آئندہ سماعت پر سنے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز نے حج پر جانا ہے اور حج کے بعد کیس کی سماعت کی جائے گی۔