پاکستان

پاناما فیصلے پر عملدرآمد کیلئے جسٹس اعجاز الاحسن نگراں جج مقرر

جسٹس اعجاز الاحسن نیب اور احتساب عدالت میں آئندہ کی کارروائیوں کی نگرانی بھی کریں گے، نوٹیفکیشن

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں شریف خاندان کے اثاثوں کی جانچ پڑتال اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو نگران جج مقرر کردیا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ 28 جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جبکہ نیب کو سابق وزیراعظم، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز، داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف 6 ہفتوں میں ریفرنسز دائر کرنے اور 6 مہینے کی مدت میں رپورٹ مکمل کرکے عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا۔

عدالتی بینچ نے فیصلے میں چیف جسٹس کو یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کریں، جو عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے کے ساتھ نیب اور احتساب عدالت کے معاملات کی نگرانی بھی کریں۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے آج نیب میں شریف خاندان کے خلاف کاروائی کی نگرانی کے لیے جسٹس اعجازالاحسن کو نگراں جج مقرر کردیا۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے ججز کون ہیں؟

رجسٹرار آفس سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس اعجاز الاحسن کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق معزز جج اعجاز الاحسن پاناما فیصلے پر عملدرآمد کے نگراں ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ نیب اور احتساب عدالت میں آئندہ کی کارروائیوں کی نگرانی بھی کریں گے۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اس وقت بیرون ملک گئے ہوئے ہیں لہٰذا ان کی عدم موجودگی میں جسٹس اعجاز افضل ان کی جگہ پر مانیٹرنگ کے فرائض انجام دیں گے۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 جولائی کو سنایا گیا۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔