شاہد خاقان کےخلاف نیب تحقیقات دسمبر2016 میں ختم کی گئیں
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2013 میں لیکویفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا متنازع ٹھیکہ دینے پر شاہد خاقان عباسی کے خلاف جاری تحقیقات کو گذشتہ سال دسمبر میں ختم کردیا تھا۔
نیب ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ 'نیب کراچی نے 19 دسمبر 2016 کو اپنے ایک علاقائی بورڈ اجلاس میں یہ کیس میرٹ پر بند کیا'۔
واضح رہے کہ تحقیقات کا سلسلہ یہ بات ثابت ہونے کے بعد روکا گیا کہ ایل این جی ٹھیکہ 'غیر شفاف انداز' میں دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا
ڈان کو حاصل ہونے والی ایک دستاویز میں یہ بات سامنے آئی کہ دسمبر کے اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل نیب نے کہا، 'جامع بحث میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایل این جی منصوبہ اس وقت جاری ہے، نیب کی مداخلت قومی اور عوامی اہمیت کے حامل منصوبے سے ایل این جی کے حصول کی کوشش کو خطرے میں ڈال دے گی، لہذا اس انکوائری کو ہماری جانب سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے'۔
دستاویز کے مطابق اسی اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 'انکوائری کے دوران یہ بات ثابت ہوئی کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز (آئی ایس جی ایس) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) نے کراچی بندرگاہ پر ایل این جی ٹرمینل کے لیے بطور کامیاب بولی دہندہ اینگرو کا انتخاب غیر شفاف انداز میں کیا'۔
یہ بھی پڑھیں: نامزد عبوری وزیراعظم کو بھی نیب انکوائری کا سامنا
نیب انکوائری میں یہ علم بھی ہوا کہ سوئی سدرن نے اینگرو کی ذیلی کمپنی کے ساتھ ایل این جی ری گیسیفکیشن کے 15 سالہ معاہدے پر دستخط کیے۔
واضح رہے کہ حکومت نے سوئی سدرن کی طرف سے ایل این جی خریداری کا ذمہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو سونپا تھا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کی وجہ سابق وزیر برائے پٹرولیم اور قدرتی وسائل کا نیب انکوائری میں مرکزی ملزم ہونا ہے۔
یہ خبر 2 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔