پاکستان

شاہد خاقان عباسی عبوری وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے پُرامید

ایوان کی واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے 342 میں سے 188 قانون ساز پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسلام آباد: حزبِ اختلا ف کی صفوں میں عدم اتحاد کے باعث قومی اسمبلی میں آج عبوری وزیراعظم کے انتخاب میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار شاہد خاقان عباسی کی فتح آسان دکھائی دیتی ہے۔

گو کہ نواز لیگ کے اپنے اراکین کی تعداد ہی درکار 172 ممبران سے زائد ہے تاہم اتحادیوں کی حمایت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے متفقہ اُمیدوار لانے پر اتفاق رائے قائم نہ ہونے کے سبب عبوری وزیراعظم کے انتخاب کا عمل تقریباً یک طرفہ ہوچکا ہے۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں متفقہ امیدوار منتخب کرنے میں ناکامی کے بعد چار اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 5 امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراچکے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے خورشید شاہ اور نوید قمر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے عوامی مسلم لیگ کے چیف شیخ رشید، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کشور زہرہ اور جماعت اسلامی کی جانب سے صاحبزادہ طارق اللہ شامل ہیں۔

جبکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں درست قرار دیا جاچکا ہے۔

مزید پڑھیں: وزارت عظمیٰ کیلئے 6 اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور

ایاز صادق امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے—فوٹو/ آن لائن

خیال رہے کہ شیخ رشید نے شاہد خاقان عباسی کے کاغذات پر یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) میں کرپشن ریفرنس کا سامنا کررہے ہیں تاہم اسپیکر ایاز صادق نے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ہدایت دی کہ وہ یہ شکایت مناسب فورم پر اٹھائیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیئے جانے کے بعد صدر مملکت ممنون حسین نے نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نامزد عبوری وزیراعظم کو بھی نیب انکوائری کا سامنا

نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ہفتہ (29 جولائی) کو مسلم لیگ (ن) نے اس عہدے کے لیے شہباز شریف کے نام کا اعلان کردیا تھا تاہم فوری طور پر شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا۔

میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابینہ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، کابینہ ارکان پر مشاورت ہوگی اور پارٹی فیصلہ کرے گی۔

دریں اثناء اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پی ٹی آئی اپنے امیدوار کے لیے سوائے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے نہ صرف شیخ رشید کی نامزدگی پر اعتراض کیا بلکہ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے امیدوار کا اعلان اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس سے پہلے ہی کردیا۔

مزید پڑھیں: یکم اگست کو نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا

علاوہ ازیں، پی ٹی آئی کے 30 جولائی کے جلسے میں عمران خان کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری پر تنقید کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی نے شیخ رشید کی حمایت سے انکار کیا۔

دوسری جانب پی پی پی رہنما سعید غںی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کی گئی اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے جس میں وہ منی ٹریل دینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور جلد ہی انہیں بھی نااہل قرار دے دیا جائے گا۔

جب اس حوالے سے پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے کسی ایک امیدوار پر متفق نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔

ممنکہ منظرنامہ

ایوان کی واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے 342 میں سے 188 قانون ساز پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں۔

دو نشستیں خالی ہونے کی وجہ سے آج ہونے والے انتخابی عمل میں 340 ممبران حصہ لیں گے۔

ایوان کی حاضری 100 فیصد ہونے اور تمام اراکین کے پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ ڈالنے کی صورت میں، جس کا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے، ن لیگ کے امیدوار کم از کم 213 ووٹ حاصل کریں گے جبکہ بقیہ 126 ووٹ اپوزیشن کے دیگر امیدواروں میں تقسیم ہوجائیں گے۔

اپوزیشن جماعتوں کی صورتحال بھی دلچسپ ہے، پی ٹی آئی کے 33 اراکین میں سے 3 رکن قومی اسمبلی 2014 میں پارٹی سے نکالے جاچکے ہیں تاہم وہ اب بھی اسمبلی کے ارکان ہیں، ان افراد کے پاس دو آپشنز ہیں یا وہ پی ٹی آئی امیدوار کی حمایت کریں یا غیر حاضر رہیں۔

اگر یہ اراکین ایوان میں آتے ہیں تو انہیں پی ٹی آئی امیدوار ہی کو ووٹ دینا ہوگا وگرنہ آئینی شق کے تحت نااہل ہوجائیں گے۔

اسی طرح ایم کیو ایم کے عارف حسنین بھی جماعت چھوڑنے کے باوجود ایم کیو ایم کے 24 اراکین کا حصہ ہیں۔