اس 'تاریخی فیصلے' پر کیوں نظرِثانی کی جانی چاہیے؟
"اس بات کا انکار نہیں کیا گیا کہ جواب دہ نمبر 1 کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ کے سربراہ کے طور پر تنخواہ کے مستحق تھے، لہٰذا ان کا یہ بیان کہ انہوں نے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی، یہ قرار نہیں دے سکتا کہ ان کی تنخواہ واجب الوصول نہیں ہے، لہٰذا یہ ایک اثاثہ ہے۔ جب ایک غیر وصول شدہ تنخواہ واجب الوصول ہونے کی بناء پر ایک اثاثہ تھی تو جواب دہ نمبر 1 کو اسے 2013 کے عام انتخابات میں عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12(2)(ف) کے تحت اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ چوں کہ جواب دہ نمبر 1 نے مندرجہ بالا اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا، اس لیے یہ جان بوجھ کر غلط اقرارنامہ جمع کروانا اور اوپر بتائے گئے قانون کی خلاف ورزی ہے، چنانچہ وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 99 (1)(ف) اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 62 (1)(ف) کے تحت صادق نہیں ہیں۔" — سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کا وزیرِ اعظم کو نااہل کرتے ہوئے متفقہ نتیجہ۔
بس۔
نواز شریف 2013 کے کاغذاتِ نامزدگی میں 10,000 اماراتی درہم کی غیر وصول شدہ تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔ ایک منتخب وزیرِ اعظم کو نااہل کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے صرف اس بات کو بنیاد بنایا۔
اس کے علاوہ باقی سب کچھ — آپ کے تمام لندن فلیٹس، کیلیبری فونٹس، قطری خطوط، دبئی کی فیکٹریاں، کرپشن، منی لانڈرنگ — "بادی النظر میں قابلِ چارہ جوئی" ہیں اور نیب ریفرینس کے آغاز اور نیب عدالت کے سامنے ٹرائل کے لیے کافی ہیں، مگر آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نااہلی کے لیے ناکافی ہیں۔
جہاں تک ان معاملات کا تعلق ہے تو ججز نے وہی بات دہرائی جو وہ پہلے کہہ چکے تھے:
"قانون کی ان شقوں کے تحت اگر عوامی عہدے پر براجمان کسی بھی شخص پر ایسے الزامات لگائیں تو قانون کے مطابق تحقیقات اور ثبوتوں کا اکٹھا کیا جانا ضروری ہے کہ آیا وہ، یا ان کے زیرِ کفالت لوگ یا ان کے بے نامی دار اپنی ظاہر شدہ آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں۔ ایسی تحقیقات کے بعد احتساب عدالت کے سامنے ایک مکمل ٹرائل ہوتا ہے تاکہ اس کی ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے۔ مگر جہاں کسی بھی تحقیقاتی ادارے نے کیس کی تحقیقات نہیں کیں، اور کسی بھی گواہ سے احتساب عدالت میں سوالات اور جرح نہیں کی گئی، اور نہ ہی قانونِ شہادت آرڈر 1984 کے تحت ملزم پر الزام ثابت کرنے والی دستاویزات پیش کی گئیں، نہ ملزم پر الزام ثابت کرنے کے لیے زبانی یا دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے، چنانچہ عوامی عہدے کے حامل شخص کو نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ ان ریکارڈز، جن کی تصدیق ابھی کی جانی ہے، کی بناء پر آئین کی شق 184(3) کے تحت کوئی حکمنامہ جاری نہیں کر سکتی۔"