نقطہ نظر

اداریہ: پاناما کیس کے فیصلے سے جمہوریت کو خطرہ نہیں ہوگا

جب سیاسی بازی پر بہت کچھ لگا ہو، وہاں یہ لازم ہے کہ آج کسی نہ کسی کیمپ میں مایوسی ضرور ہوگی۔

آج کا دن پاکستان میں عدالت اور سیاست کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ اس سے پہلے بھی وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا ہے، اور وزرائے اعظم بچ نکلے ہیں، مگر کسی کے بارے میں ایسی عوامی اور زیادہ تر شفاف تحقیقات نہیں ہوئی ہیں جیسی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں۔

چاہے نواز شریف کو عوامی عہدے کے لیے غیر موزوں قرار دیا جائے، ان کا مقدمہ احتساب عدالت میں بھیجا جائے، یا پھر سپریم کورٹ کوئی اور راستہ اختیار کرے، مگر یہ بات طے ہے کہ بلاشبہ ایک خوش آئند مثال قائم کی جا چکی ہے: ایک وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان سے ان کی آمدن اور دولت کے ذرائع کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں منتخب و غیر منتخب عوامی عہدیدار معمولاً اور کھلے عام اپنے قانونی ذرائع آمدن اور ڈکلیئر شدہ دولت سے زیادہ شان و شوکت سے زندگی گزارتے ہیں، وہاں پاناما پیپز کیس یہ سب باتیں عوام کے سامنے لانے اور احتساب کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی عوام تمام ریاستی اداروں میں ایک بہتر، زیادہ شفاف اور مزید قابلِ احتساب قیادت کے مستحق ہیں۔

جب سیاسی بازی پر بہت کچھ لگا ہو، وہاں یہ لازم ہے کہ آج کسی نہ کسی کیمپ میں مایوسی ضرور ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اس کے احکامات کو فوراً بجا لایا جائے۔

آج سے بہت عرصے بعد، اور جب میاں نواز شریف سیاسی میدان کا حصہ نہیں رہے ہوں گے، تو جمہوری نظام کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے ایک آزاد عدلیہ کی ضرورت ہوگی۔ وقتاً فوقتاً پاناما پیپرز کیس میں درخواست گزاروں اور مدعا علیہان دونوں نے عدالت کو تقریباً سیاست کی نذر اور جمہوری اداروں کی ساکھ کو متاثر کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس سیاسی تماشے کو، جو اسے ہی نگل جانے کے قریب تھا، کے بارے میں غیر ضروری برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، مگر عدالت کے پاس احتساب کے مقصد کو آگے بڑھانے اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے موقع ہے۔ عدالت ایسا ایک معقول اور ٹھوس دلائل پر مبنی فیصلہ جاری کر کے کر سکتی ہے۔ اس طرح کرنے سے یہ ساری ذمہ داری پاکستان کی سیاسی قیادت پر ڈال دے گی کہ وہ جمہوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کو جمہوری نظام کی مضبوطی کے مرحلے میں ایک قدم سمجھتے ہوئے اسے تسلیم کریں۔

اور آخری بات یہ کہ ملک کے سیاستدانوں کو اس فیصلے کے بعد اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ سیاسی مقابلے بازی جمہوریت کے لیے اہم ہے، مگر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف کی رسہ کشی سے ملک پیچھے رہتا جا رہا ہے۔ ملک میں اب وہی 1990 کی دہائی کا منظرنامہ دکھائی دیتا ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کے چاہے جو بھی ہو جائے حکومت میں رہنے کے عزم، اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چاہے جو بھی ہوجائے اقتدار میں آنے کے عزم سے جمہوری نظام کو ہی نقصان ہو جائے۔

جمہوریت کو صرف نواز شریف کے جانے سے نہ کوئی خطرہ ہوگا، اور نہ ہی یہ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے خود بخود مضبوط ہو جائے گی۔

دونوں رہنماؤں کو فوراً اس عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو اب تک دونوں میں دکھائی نہیں دی ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ