'ڈیانا خود بھی ایک بچے کی طرح تھیں'
'میری والدہ ہر روز میرے ساتھ رہتی ہیں'، برطانیہ کے ولی عہد 35 سالہ پرنس ولیم 20 سال قبل پیرس میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہونے والی اپنی والدہ ڈیانا کو کچھ اس انداز میں یاد کرتے ہیں۔
پرنس ولیم کا کہنا ہے 'جن لوگوں کو آپ اس طرح کھو دیں وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں'۔
'ڈیانا، ہماری والدہ: ان کی زندگی اور لیگسی' نامی ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم میں لیڈی ڈیانا کے بیٹوں کے ساتھ گفتگو کے ذریعے ان کی والدہ کی زندگی کے پوشیدہ پہلوؤں کو نشر کیا جائے گا۔
پرنس ولیم اور ان کے 32 سالہ بھائی ہیری اپنی والدہ کی پرانی فوٹو البمز کی مدد سے اس دستاویزی فلم کو دلچسپ بنائیں گے۔
لیڈی ڈیانا کی 20ویں برسی کے موقع پر ایشلے گیتھنگ کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ دستاویزی فلم شہزادی ڈیانا کی زندگی کا شائستہ اور مختصر جائزہ ہے جس میں ان کے قریبی دوستوں، ملازمین اور رشتے داروں کی یادداشت میں موجود باتیں شامل ہیں۔
اس فلم میں 1981 میں لیڈی ڈیانا کی پرنس چارلس سے شادی، 1992 میں ان کی علیحدگی اور 1996 میں ہونے والی طلاق کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
ڈیانا کی زندگی بالخصوص ان کی موت کو ہولناک سازشی نظریوں یا کبھی ختم نہ ہونے والی جذباتی کہانی کی صورت بیان کرنا نہایت آسان ہے لیکن کسی مقام پر اسے تاریخ کا حصہ بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تاہم ولیم اور ہیری کی زبانی یہ دستاویزی فلم لیڈی ڈیانا کی زندگی کو ایک الگ پہلو سے بیان کرنے کوشش ہے۔
مزید پڑھیں: لیڈی ڈیانا کی موت پر بات نہ کرنے پر شہزادہ ہیری کو 'افسوس‘
ڈیانا اور میڈیا کا تعلق، خاص کر وہ پاپارازی جو مرتے دم تک ان کا پیچھا کرتے رہے، عوام جو ان کے بارے میں کبھی بھی مکمل طور پر نہ جان سکے، شاہی خاندان پر ڈیانا کا اثر، جو اب بھی بڑی حد تک محسوس ہوتا ہے اور 12، 15 سال کے ان کے بیٹے جو پہلے ڈیانا کے ساتھ چلتے تھے مگر ان کی موت کے بعد انہیں اکیلے اتنے بڑے دکھ کا سامنا کرنا پڑا، وہ اپنی والدہ کے بارے میں اب کیا سوچتے ہیں؟ انہیں کیا یاد ہے؟
دستاویزی فلم میں ولیم بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ محل کی دیواروں سے باہر موجود حقیقی دنیا کو اچھی طرح سمجھتی تھیں، 'وہ بہت کم عمر سے ہی ہمیں بھی یہ دنیا دکھانا چاہتی تھیں'۔
ڈیانا بے گھر افراد کے شیلٹر ہاؤس میں اپنے ساتھ دونوں بیٹوں کو بھی لے جاتی رہیں اور ان میں سے ایک شیلٹر ہاؤس ایسا ہے جہاں ولیم اب بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں۔
ہیری جو آج تک صرف اپنی والدہ کے انتقال پر روئے ہیں، کہتے ہیں کہ اب بھی ایسا بہت سا غم ہے جسے وہ باہر نکالنا چاہتے ہیں۔
ہیری کی یادداشت میں جذباتی باتیں موجود ہیں، اپنی والدہ کی ہنسی اور ان کا تیز میوسیقی کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کرنا۔
ہیری کے مطابق ان کی والدہ خود بھی ہر طرح سے ایک بچہ تھیں اور کہا کرتی تھیں 'جتنا جی چاہے شرارت کرو لیکن بس پکڑے نہ جانا'۔