نقطہ نظر

مسلم امت کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

فلسطین کی آزادی کبھی مسلم امت کا سب سے بڑا مقصد تھا مگر اب سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس پڑھاتے ہیں۔

مسلم امت اپنے ہی خلاف برسرِپیکار ہے۔ آخر شام، عراق، لیبیا، یمن، افغانستان، ترکی اور پاکستان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل کو آپ اور کیا نام دیں گے؟

سچ کہیں تو مسلم ممالک کے عوام اور حکمرانوں کو ایک طویل عرصے سے 'امت' کی کوئی فکر نہیں ہے۔ مسلم ممالک میں ایک دوسرے سے ریاستی تعلقات مذہبی شناخت سے علیحدہ و آزاد ہی رہے ہیں۔ اِن کا زیادہ تر تعلق ملکی مفاد، علاقائی سیاست اور حکمرانوں کی ذاتی خواہشات پر ہوتا ہے۔

میری بات نہ مانیں، بلکہ ثبوت خود دیکھیں۔

پاکستان کا قیام مذہبی بنیادوں پر عمل میں لایا گیا تھا، مگر 1956 میں سوئیز بحران کے دوران پاکستان کا مؤقف غیر واضح تھا۔ جب مصری صدر جمال عبدالناصر نے سوئیز کینال کو قومیا کر برطانیہ کو باہر کا راستہ دکھایا تو پاکستان نے ناصر کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب ہندوستان سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار، مکمل طور پر عربوں کا حامی اور فلسطین کی آزادی کا بلند آواز داعی رہا۔ شکریہ ادا کرنے کے لیے شاہ سعود بن عبدالعزیز السعود نے ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا اور اعلان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جارہا ہے۔

اِس بات پر پاکستان بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور جب ردِعمل میں جواہر لال نہرو نے ریاض کا دورہ کیا، تو سعودی فرماں روا خود انہیں وصول کرنے آئے، اور جب ریاض کی گلیوں میں بینر آویزاں کیے گئے جن میں نہرو کو رسول السلام (امن کا پیامبر) قرار دیا گیا تھا، تو پاکستانی اخبارات تو غصے سے پھٹ پڑے۔

یکم دسمبر 1956 کو ڈان اخبار نے اپنے اداریے میں عربوں اور "جمال ناصر کی پاکستان سے نفرت، اور بھارت اور اس کے نہرو سے محبت" پر کڑی تنقید کی۔ اداریے میں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اس قدر اندھے تعصب اور جھکاؤ کا تو 'ماہرینِ نفسیات سے معائنہ کروانا چاہیے۔" دوسرے لفظوں میں اداریے میں عرب دنیا کے اُس وقت کے عظیم ترین ہیرو کو پاگل قرار دے دیا گیا تھا۔

آج پاکستان اپنے دونوں مسلم پڑوسیوں افغانستان اور ایران سے تنازعات کا شکار ہے۔ ایران وقتاً فوقتاً پاکستان پر شیلنگ کرتا ہے اور افغانستان بھی ایسا اکثر کرتا ہے۔ پاکستان اپنی آرٹلری سے اس کا جواب دیتا ہے، جبکہ ایئرفورس نے گزشتہ ماہ ایک ایرانی ڈرون بھی مار گرایا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے پڑوسیوں میں سب سے بہترین تعلقات چین سے ہیں، ایک ایسی کمیونسٹ ریاست جس نے اپنے مسلم اکثریتی صوبے میں داڑھی اور برقعے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

ہندوستان کے ایران اور افغانستان دونوں سے اچھے تعلقات ہیں، جبکہ چین سے ہندوستان کی تجارت پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ سعودی عرب اور قطر کی بادشاہتیں، جو دونوں ہی وہابی ہیں، اب عملی طور پر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ سعودیوں کے نزدیک قطر اپنے حجم سے کہیں زیادہ بڑے اقدامات کر رہا ہے اور اپنی خارجہ پالیسی سنبھال نہیں پا رہا۔

قطر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے عرب دنیا کا واحد آزاد خبر رساں ادارہ الجزیرہ ٹی وی بند کرنے کے مطالبات بھی مسترد کردیے ہیں۔ اِس کے ردِعمل میں سعودی عرب نے تمام قطریوں اور اُن کے خاندانوں، اور ناچنے والے 15 ہزار قطری اونٹوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔


گزشتہ سال سعودی عرب نے ہندو بنیاد پرست وزیرِاعظم نریندرا مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا۔ سعودی فرماں روا نے مسئلہ کشمیر اور چھرّوں والی بندوقوں کے بہیمانہ استعمال پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔


یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ 'امت' کے تصور کے خالی پن کا واضح ثبوت ہے۔ مسلم دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک کے خلاف جاری اِس جنگ میں اب تک 7,600 مسلمان قتل اور 42,000 زخمی ہوچکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں سعودی عرب کی قیادت میں کثیر الملکی اتحاد کی بمباری کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔ اِس پر پاکستان نے کم ہی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میری نظر سے تو کبھی کوئی ٹی وی نیوز رپورٹ یا شام کا ٹاک شو ایسا نہیں گزرا جس میں یمن کی جنگ پر بحث ہوئی ہو۔

فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ کبھی مسلم امت کا سب سے بڑا مقصد تھا جس پر شیعہ سنی سب متفق تھے اور کوئی تقسیم نہیں تھی۔ مگر اب سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ قربتیں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔ دونوں ممالک ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں۔ ناکام عرب بہار کے بعد جنرل سیسی کا مصر اور خلیج کی بادشاہتیں ایران سے خوفزدہ ہیں اور اسرائیل کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ فلسطین کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔

تو اِس سب میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کہاں ہے جس کا کام امت کو متحد کرنا اور اُس کی نمائندگی کرنا ہے؟ سعودی عرب میں قائم اِس تنظیم میں 57 رکن ممالک ہیں اور یہ خود کو 'مسلم دنیا کی اجتماعی آواز' قرار دیتی ہے۔

مگر او آئی سی شام، عراق، لیبیا اور یمن کو نگل جانے والی جنگوں کے بارے میں خاموش ہے۔ اِس کے علاوہ یہ دیگر مسلم ریاستوں کے مابین یا اُن کے اندر جاری تنازعات کے بارے میں بھی خاموش ہے۔ ابھی تک تو اُس نے پریشانِ حال اور دربدر مہاجرین کو ایک روپیہ تک جاری نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مغرب کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان او آئی سی کے سنہرے خواب میں شروع سے ہی مبتلا تھا مگر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کے لاہور میں منعقد کردہ اجلاس کا جوش و جذبہ وقت کے ساتھ ختم ہو چکا ہے۔ اب اِس کی یادگار کے طور پر صرف اسلام آباد کی شارعِ دستور پر ایک عظیم الشان عمارت رہ گئی ہے جس میں کامسٹیک کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ یہ او آئی سی کی سب سے بڑی سائنسی باڈی ہے جس کے اخراجات کے لیے پاکستان شیر کے حصے کے برابر فنڈز دیتا ہے۔

کامسٹیک کا کام امت میں سائنس کا فروغ ہے۔ یہ ایک بے فائدہ کوشش ہے کیوں کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ترکی اور ایران کو جزوی طور پر چھوڑ کر اُس میں مسلم دنیا میں سائنس کی زبوں حالی بھی شامل کریں۔ وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کا یہ جملہ مشہور ہے کہ 'صفر جمع صفر جمع صفر پھر بھی صفر ہی رہتا ہے۔' سوئیز بحران کے دوران عرب بلاک کے بارے میں اُن کا یہ جملہ سائنسی تعاون کے بارے میں صادق آتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں او آئی سی کو دفن کرکے اِس خواب سے باہر آجانا چاہیے کہ کامسٹیک مسلم دنیا میں سائنس کے فروغ کے لیے کچھ کرے گا۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس کی عمارت کو ایک عوامی سائنسی لائبریری یا سائنسی میوزیم میں تبدیل کرکے اِس کے اسٹاف کو پاکستان میں سائنس کے فروغ کے کام پر لگا سکتے ہیں تاکہ پاکستانی بچے سائنس سے متاثر ہوں۔

اگر مسلم ریاستوں نے امت پر کوئی توجہ نہیں دی، تو غیر ریاستی عناصر کی کیا بات کی جائے۔ انہوں نے بھی تو ہزاروں ہم مذہبوں کو قتل کیا ہے۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہی پرندے کے دو پروں کے مترادف ہیں۔ ایک کے ہاتھوں افغان مسلمان قتل ہوتے ہیں، تو دوسرے کے ہاتھوں پاکستانی مسلمان۔ ایک کو پاکستان میں پناہ ملتی ہے تو دوسرے کو افغانستان میں۔ اس کے علاوہ عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ گروہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر کسی کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ ایسے کوئی اشارے موجود نہیں کہ اِن میں سے کوئی گروہ مستقبل قریب میں ختم ہوگا۔

مسلم ریاستوں اور ان کے لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔ اِس کے لیے ہمیں تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کے کلیے پر قائم مضبوط جمہوری ادارے بنانے ہوں گے، عوامی زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا، تمام مسلم مکاتبِ فکر اور دیگر مذاہب کے ساتھ عزت و برابری کا سلوک کرنا ہوگا، افراد کو آزادی اور پوری قوم کو سائنس اور عقلیت پسندی پر مبنی تعلیم دینی ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔

پرویز ہود بھائی

لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔