پاکستان

وزیراعظم نے چترال میں لواری ٹنل کا افتتاح کردیا

منصوبے کی تکمیل پر بہت خوشی ہے، چترال کو لاہور، کراچی، اسلام آباد کے مقام پر لائیں گے، وزیراعظم کا عوامی اجتماع سے خطاب

اپر دیر: وزیراعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ لواری ٹنل کی تعمیر میں 70 سال صرف کرنے والوں نے عوام پر بہت ظلم کیا، اگر 1974 میں اس منصوبے پر کام شروع ہوجاتا تو یہ 1980 تک مکمل ہوچکا ہوتا۔

لواری ٹنل کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لواری ٹنل منصونے کی تکمیل پر بہت خوشی ہے، چترال کو لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے مقام پر لائیں گے۔

اپردیر میں عوامی اجتماع سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں ہماری حکومت نہیں یہاں اُن کی حکومت ہے جو انتخابات سے پہلے کہتے تھے کہ نیا پاکستان بنائیں گے لیکن خیبر پختونخوا میں بھی ہم ہی کام کررہے ہیں'۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ 'ان کا نیا پاکستان اور نیا خیبرپختونخوا کہیں دکھائی نہیں دیتا'۔

اس موقع پر وزیراعظم نے چک درا سے چترال تک موٹروے کی طرز پر بہترین سڑک کے قیام کی خواہش بھی ظاہر کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں جگہ جگہ بجلی کے پلانٹس ہم لگارہے ہیں، ترقیاتی کام ہم کررہے ہیں، چترال میں خواتین کی یونیورسٹی بھی ہم بنائیں گے'۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'چترال پورے پاکستان سے الگ تھلگ تھا اور سردیوں میں کئی مہینوں تک چترال کا رابطہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے منقطع رہتا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس ٹنل کی تعمیر کا اعلان 1974 میں ہوا تاہم وہ صرف کاغذ کی حد تک محدود تھا، اگر اُسی وقت تعمیر شروع ہوجاتی تو یہ 1980 تک مکمل ہوجاتا، اتنی انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں اور چترال پاکستان سے الگ نہ رہتا'۔

انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ وہ بتائیں '2017 کا پاکستان 2013 کے پاکستان سے بہتر ہے یا نہیں؟'

پاناما پیپرز کیس کے تناظر میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ'آج نواز شریف کے احتساب کی باتیں ہورہی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج اس کے احتساب کی بات ہورہی ہے جو پاکستان کے اندھیرے دور کررہا ہے، سڑکیں بنارہا ہے، ٹنل بنا رہا ہے، جے آئی ٹی، پی ٹی آئی اور تمام سیاستدانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس احتساب کو کوئی نہیں مانے گا'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'یہ احتساب نہیں استحصال ہے، گارنٹی سے کہتا ہوں اس احتساب کو پورے پاکستان میں کوئی نہیں مانے گا'۔

کرپشن کے الزامات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے میں نے کہاں درختوں کے ٹھیکے میں پیسے بنائے، کون سے بجلی کے منصوبے میں پیسہ بنایا؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'میں نے 168 ارب روپیہ بچت کرکے عوام کو واپس لوٹایا ہے اور میں اس طرح کی تہمت برداشت نہیں کرسکتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہر انسان کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے اور مجھے بھی ہے، مجھ پر الزام لگانے والے اپنا منہ دھو کر آئیں اور خود کو ثابت کریں'۔

مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'روز اٹھ کر استعفوں کی بھیک مانگتے ہیں، نواز شریف استعفیٰ دے دو'۔

ویراعظم نواز شریف نے عوام سے سوال کیا کہ جو سمجھتے ہیں ان کا استعفیٰ مانگنے پر ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے وہ ہاتھ اٹھا کر تائید کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 2013 میں جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت دنیا کہہ رہی تھی کہ ایک سال میں پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیا جاتا تھا، دہشت گردی عروج پر تھی ملک اندھیروں میں تھا اور پاکستان میں اقتصادی بدحالی عروج پر تھی۔

مخالفین اور بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اس ملک میں دھرنوں کا سرکس شروع کیا گیا، شارع دستور 4 مہینے یرغمال رہی، جبکہ پی ٹی وی، وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ پر حملے ہوتے رہے لیکن ہم نے فتنہ و فساد کی قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا'۔

استعفیٰ مانگنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'کیا نواز شریف تمہارے ووٹوں سے وزیراعظم بنا ہے جو استعفیٰ دے؟'

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے مخالفین کو عوام 2018 میں بھی ٹھکرادیں گے۔

لواری ٹنل کی تعمیر

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے 8 کلومیٹر طویل لواری ٹنل کے ذریعے چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے سارا سال رابطہ قائم رہ سکے گا۔

لواری ٹنل کی تعمیر چترال کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے ماضی میں نظرانداز کیا جاتا رہا۔

خیال رہے کہ اس ٹنل کو تقریباً 25 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے جبکہ ٹنل کی تکمیل سے پشاور اور چترال کے درمیان مسافت 14 گھنٹے سے کم ہوکر 7 گھنٹے رہ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس منصوبے سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کے ذریعے اقتصادی ترقی ہوگی، مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا۔

واضح رہے کہ اس میگا ہائی وے پراجیکٹ کا آغاز 2005 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا تاہم کبھی فنڈز کی کمی اور کبھی ڈیزائن و سیکیورٹی معاملات کی وجہ سے اس کی تعمیر کو ملتوی کیا جاتا رہا۔

منصوبے پر کام کا آغاز 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد کیا گیا۔