پاناما کیس: میڈیا پر دستاویزات لیک ہونے پر عدالت عظمٰی برہم
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر چوتھے روز سماعت ہوئی، جہاں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
گذشتہ روز سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث اور وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل حسن طارق نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے، جبکہ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سے بھی دستاویزات طلب کی تھیں۔
مزید پڑھیں: پاناماکیس:'جے آئی ٹی کامقصد شریف خاندان کو صفائی کا موقع دینا تھا'
آج سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے مزید دستاویزات جمع کروائیں، عدالتی بینچ نے دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دستاویزات وقت پر جمع کروانے کا کہا تھا۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے طور پر کوشش کی۔
جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تمام دستاویزات میڈیا پر زیر بحث رہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیا پر جاری ہونے والی دستاویزات میں ایک خط سابق قطری وزیراعظم کا بھی ہے۔
جبکہ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا تو میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔
جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میڈیا پر دستاویزات میری جانب سے جاری نہیں ہوئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ نشاندہی کی کہ اب تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے، منی ٹریل کے بارے میں ہمارے سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاناماکیس: 'منی ٹریل کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی'
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حماد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔
سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔
جسٹس عظمت سعید نے واضح کیا کہ لندن فلیٹس کے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ہونے پر کوئی جھگڑا نہیں ہے اور موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ اُن کا کہنا ہے کہ مریم مالک ہیں جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ حسین مالک ہیں، فرق تو نہیں ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے واضح کیا کہ بہت فرق ہے، اگر مریم مالک ہیں تو ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔
جسس اعجاز افضل نے پھر نشاندہی کی کہ 1993 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلیٹس نہیں خرید سکتے تھے۔
3 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے خریدے اور درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیراعظم فنڈز بتائیں۔
جسٹس عظمت سعید نے نشاندہی کی کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے؟ تو کہہ دیتے ہیں کہ نیب کا سیکشن 9 اے 5 کرپشن کے حوالے سے ہی ہے۔
سماعت کے دوران سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم اور برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کی دستاویزات کھول دی گئیں، جس میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے 2 خطوط بھی شامل تھے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا، دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔
عدالتی بینچ نے سلمان اکرم راجا کی جانب سے پیش کی گئی بیشتر دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان دستاویزات کی یو اے ی کی وزارت انصاف نے پہلے ہی تردید کردی تھی۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منی ٹریل کا جواب اگر بچے نہ دے سکیں تو اس کے نتائج پبلک آفس ہولڈر (یعنی وزیراعظم) پر مرتب ہوں گے اور انہیں بھگتنا پڑے گا اور ہم ان کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی:’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہمارے ہاتھ صاف ہیں‘
دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا 7 سال قید ہو سکتی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت میں غلط دستاویزات کیسے پیش ہوگئیں، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے،یہ آپ لوگوں نے کیا کردیا، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا،
ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا۔
جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ دستاویزات ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے جمع کرائی ہیں، معلوم کروں گا کہ یہ کیسے ہوا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کیلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 'گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں، کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گی'.
یہ بھی پڑھیں: پاناما، جے آئی ٹی، مریم نواز اور’کیلبری‘ فونٹ
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں، ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے، فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جارہے۔
جسٹس عجاز الاحسن نے وزیراعظم کے وکیل سے کہا کہ قطری کو پیش کرنا آپ کی ذمہ داری تھی، وہ آپ کا اسٹار گواہ تھا لیکن آپ نے انہیں پیش نہیں کیا، آپ قطری سرمایہ کاری کی رسیدیں ہی دکھا دیتے، آپ نے نہ ٹرانزیکشن دکھائی اور نہ رسیدیں، ہم کیسے مان لیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے دلائل کل ختم ہو جائیں گے،جس پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وہ جواب الجواب پر مختصر دلائل دیں گے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا، اگر کوئی آیا تو ٹھیک ورنہ رہنے دیں۔
جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ شاید شاہد حامد کیپٹن صفدر کے وکیل ہوں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر وکیل آیا تو سن لیں گے ورنہ فیصلہ دے دیں گے۔
بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعہ (21 جولائی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔