گرمیوں کا موسم ہے، ٹریکنگ کریں گے؟
گرمیوں کا موسم ہے، ٹریکنگ کریں گے؟
پاکستان کو کوہ پیماؤں کی جنت کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
یہاں 8000 میٹر بلندی کے حامل 5 پہاڑ ہیں اور 7 ہزار میٹر سے بھی بلند 108 چوٹیاں ہیں اور اتنی ہی تعداد میں 6 ہزار میٹر سے بھی بلند چوٹیاں موجود ہیں۔
جبکہ 4 سے 5 ہزار میٹر بلند پہاڑوں کا تو کوئی حساب نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں دیوقامت پہاڑوں کے درمیان مختلف دلچسپ ٹریکس کا سلسلہ جیسے ختم ہونے کا نام ہی لیتا۔
کون سے ٹریک پر جائیں، کہاں جائیں؟
تو جناب ایسی صورتحال میں آپ کے لیے ہم نے ایسے پانچ ٹریکس کا انتخاب کیا ہے جن پر ٹریکنگ کا مزہ آپ ان گرمیوں میں اٹھا سکتے ہیں۔
ٹریکنگ اور کوہ ماہی کا موسم ستمبر میں ختم ہو جائے گا لہٰذا آپ کے پاس شمالی علاقہ جات میں ایڈوینچر پر جانے کے لیے اب بھی وقت باقی ہے۔
زیادہ تر ٹریکس کا آغاز گلگت یا اسکردو سے ہوتا ہے اور شکر ہے کہ ان دونوں شہروں کے لیے کئی پروازیں بھی چلتی ہیں۔ اگر آپ شمالی علاقہ جات یا پہاڑوں میں نہیں رہتے تو آپ کے لیے تجویز ہے کہ ہائکنگ بوٹ چڑھانے سے قبل اور کسی ایڈوینچر کا رخت سفر باندھنے سے پہلے، آپ کو ان دونوں میں سے کسی ایک شہر میں ایک رات کا قیام ضرور کریں تا کہ آپ کا مزاج بلند سطح زمین کے ماحول کے مطابق تھوڑا بہت ڈھل جائیں۔
پسو گلیشئر: اناڑیوں کے لیے
یہ گلیشئر نو سکھیے ٹریکرز کے لیے عبور کرنا کافی آسان ہے، آپ اپنی فٹنس کے مطابق 4 سے 6 گھنٹوں میں پورے پسو گلیشئر کی ٹریکنگ کر سکتے ہیں۔
وہاں کی ٹریکنگ کا عام طریقہ تو یہی ہے کہ آپ بورتھ جھیل جائیں اور دوپہر کا کھانا آرڈر کریں۔
اس کے بعد آپ کا ڈرائیور/گائیڈ آپ کو شروعاتی نکتے پر لے جائے گا جہاں آپ چھوٹی سی چٹانی وادی سے ہائکنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اس کا مشکل حصہ گلیشئر سے قبل کی چڑھائی ہے۔ ایک بار آپ نے یہ مرحلہ پار کر لیا تو آپ اور گلیشئر کا بالائی مقام (گلیشئر ہیڈ) آپ کے سامنے ہوگا۔
وہاں آپ چند لمحوں کے لیے وجدانی خاموشی کا احساس پا سکتے ہیں۔ اگر آپ خاموش ہو کر تھوڑا دھیان دیں تو آپ کو گلیشئر کے ٹوٹنے اور پگھلنے کی آوازیں بھی سنائی دیں گی۔