پاکستان

پاناماکیس:'جے آئی ٹی کامقصد شریف خاندان کو صفائی کا موقع دینا تھا'

وزیراعظم کوپورا موقع دیاگیا لیکن انھوں نےکوئی چیز نہیں دی،سوچ یہ تھی کہ کچھ تسلیم نہیں کرنا،جسٹس اعجازالاحسن کےریمارکس

اسلام آباد: وزیراعظم اور ان کے خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں دوسری سماعت ہوئی، جہاں وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو موقع دینا تھا، شواہد کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کردیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے دلائل مکمل کرلیے تھے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلی سماعت

اپنے دلائل کے دوران پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کیا جائے تاکہ ان سے جرح کی جاسکے، دوسری جانب سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے وکلاء کو بھی عدالت طلب کیا تھا۔

آج جب پاناما لیکس کیس کی سماعت ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور سپریم کورٹ کے 20 اپریل کا حکم نامے پڑھ کر سنایا، ان کا کہنا تھا کہ حکم نامہ پڑھنے کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ جے آئی ٹی کو کس قسم کی تحقیقات سونپی گئی تھیں۔

وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کرچکی ہے اور عدالت عظمیٰ نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

خواجہ حارث کے مطابق جے آئی ٹی کو کہا گیا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ گلف اسٹیل ملز کیسے بنی اور کن وجوہات کی بنا پر فروخت ہوئی؟ پیسہ جدہ، لندن اور قطر کیسے گیا؟

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو وزیراعظم کے نامی دار اور زیر کفالت افراد کے اثاثوں کی چھان بین کا بھی حکم دیا تھا جبکہ نیب اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس دستیاب شواہد کے ذریعے لندن فلیٹس سے متعلق جائزے کا کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو ایک کیس جس کا فیصلہ ہوچکا،اس کو دوبارہ کھولنے کا نہیں کہا گیا، نہ ہی کسی مزید گواہ سے پوچھ گچھ کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی رپورٹ: نوازشریف کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان

اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی اگر کسی خفیہ جائیداد کی نشاندہی کرتی ہے تو کیا یہ غلط ہے؟

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے ایسے کیسز کا ذکر کیا ہے جو پہلے ہی نمٹائے جاچکے ہیں، حدیبیہ پیپرز ملز کا فیصلہ ہائی کورٹ کرچکی جبکہ التوفیق کیس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کا کیس دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا؟

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ حدیبیہ کے حوالے سے بہت سے سوالات کا تعلق لندن فلیٹس کی ادائیگی سے نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے وزیراعظم کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فریقین کے تمام اثاثوں کی چھان بین نہیں ہوسکتی؟ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، 13 سوالوں کی بنیاد پر ان کی پڑتال دوبارہ نہیں ہوسکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس پر پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں، بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا اور جب تک مکمل تحقیقات نہ ہوں، مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ رقم کہاں سے آئی، اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے قطری خط کو پڑھے بغیر اس کی تصدیق کی، جے آئی ٹی

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ حدیبیہ کیس کو شامل کرنا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت فیصلہ اُس وقت کرتی ہے جب حقائق غیر متنازع ہوں، اس مرحلہ پر رپورٹ کے کسی حصہ پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات ہائی کورٹ نے منسوخ کردی تھیں جبکہ جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے ساتھ مزید 2 سوالات اٹھا دیے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا وہ دو سوال کون سے ہیں؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا لیا اور 13 کے بجائے 15 سوال کرلیے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی مینڈیٹ نہیں تھا؟

جس پر وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ جو مقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جبکہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے اور اسحٰق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جائزہ لینا الگ معاملہ ہے اور ازسرنو تعین کرنا الگ بات ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ جے آئی ٹی اپنی سفارشات میں بند مقدمات کھولنے کا نہیں کہہ سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے شریف خاندان کےخلاف کیسز کی پیروی نہیں کی: جے آئی ٹی

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنی تجاویز اور سفارشات دے سکتی تھی، جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں، فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اور عدالت نے اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنا ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 184/ 3 کے تحت جے آئی ٹی نے نہیں عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نظیر نہیں۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے جے آئی ٹی کی رائے نہیں مواد دیکھنا ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ 'وزیراعظم کو پورا موقع دیا گیا لیکن انھوں نے کوئی چیز نہیں دی، ان سے لندن فلیٹس کا پوچھا گیا تو انھوں نے کہا معلوم نہیں، شاید حسن (نواز) مالک ہے، انھوں نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کیا، وزیراعظم نے تمام سوالات کے جواب نفی میں دیئے، سوچ یہ تھی کہ کچھ تسلیم نہیں کرنا، کچھ نہیں بتانا، جے آئی ٹی خود کرے جو بھی کرنا ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جب ہر بات کی تردید ہوتی رہی تو جے آئی ٹی کو کیا کرنا چاہیے تھا؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے میں ناکام:جے آئی ٹی

اس موقع پر وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیے کہ ہمیں کوئی دستاویزات نہیں دکھائی گئیں، جے آئی ٹی نے کوئی سوال پوچھا ہی نہیں، میرے موکل سے ایسے سوال بھی پوچھے گئے جن کا ان سے تعلق ہی نہیں تھا، لہذا جواب بھی پھر ایسا ہی دیا جانا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل اپنے خالو سے متعلق سوال کا جواب بھی نہ دے سکے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میرے موکل نے تمام اثاثے ڈکلیئر کیے ہیں اور اثاثوں کے بارے میں سوال کا جواب جے آئی ٹی کو دیا لیکن جے آئی ٹی نے اپنا موقف میرے موکل کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا موکل خاندان کے کاروبار سے دور ہے جبکہ 2007 میں جائیداد کی تقسیم میں بھی حصہ نہیں لیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ شریف فیملی آپس میں بہت قریب ہے، ہر چیز کا فیملی ممبران کو معلوم ہوتا ہے، وزیراعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے لیکن علم نہیں کہ کس کے ہیں، جن فلیٹس میں ان کے بچے 1993 سے رہ رہے ہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہونے کا کہا گیا۔

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وزیراعظم 1985 تک کاروبار کرتے رہے ہیں، اس کے بعد وزیراعظم کا کاروبار میں کوئی کردار نہیں، تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر ہیں، ان کے علاوہ کوئی اثاثے ہیں تو بتائیں، میں جواب دوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کا مکمل ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین ہیں یا نہیں؟

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایف زیڈ ای کے مالک حسن نواز ہیں، وزیراعظم کے پاس صرف چیئرمین کا عہدہ تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف زیڈ ای کی ملکیت جے آئی ٹی کو پوچھنا چاہیے تھی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے دبئی میں کام کرنے کے لیے اقامہ تو لیا تھا؟

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے ایف زیڈ ای کی بنیاد پر اقامہ 2012 میں لیا تھا، وزیراعظم ایف زیڈ ای سے تنخواہ نہیں لیتے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی تحقیقات شفاف نہیں ہوئیں، قانونی اعتراضات اٹھائے ہیں۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی پر اعتراض ہے تو اعتراض کے ساتھ ثبوت لگائیں۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ نے جے آئی ٹی رپورٹ ’ردی‘ قرار دے کر مسترد کردی

جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وزیراعظم اور دوسرے فریقین آزادی سے اپنا موقف پیش کرسکیں اور ثبوت دے سکیں، وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ جے آئی ٹی میں بری الذمہ ہوتے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اثاثوں کو تسلیم کیا گیا، اب دو ہی معاملات ہیں کہ یا تو ہم دیکھیں یا احتساب عدالت۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی میں وزیراعظم کو وضاحت کا موقع نہیں دیا گیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ آپ وضاحت دے دیں ہم سننے کو تیار ہیں۔

وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ وضاحت تحریری صورت میں جمع کراؤں گا۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز بدھ (19 جولائی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔