دنیا

'افغانستان میں امریکی حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے'

ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کے علاقائی تناظر میں پاکستان کے حوالے سے حکمت عملی بھی شامل ہے، امریکی حکام کی تصدیق

واشنگٹن: امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جیمز میٹس نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کے علاقائی تناظر میں پاکستان کے حوالے سے حکمت عملی بھی شامل ہے۔

ایک نیوز بریفنگ کے دوران امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے عندیہ دیا کہ نئی حکمت عملی افغانستان میں امریکی فوج کے کام کی نوعیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔

تاہم امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہے، اس سے امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ نئے طریقے سے تعلقات استوار ہوں گے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے جب امریکی کابینہ کی سطح کے حکام نے یہ اشارہ دیا ہے کہ امریکا کی افغانستان کے لیے پالیسی میں پاکستان سے متعلق حکمت عملی بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: ’خطے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان پالیسی کی تشکیل‘

نئی امریکی حکمت میں پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ علاقائی تناظر میں آنے والے (ممالک) اس حکمت عملی میں شامل ہوں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی خبریں، جن کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ 5 ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیجے گا، درست ثابت ہونے والی ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان کے لیے امریکی پالیسی پر نظر ثانی اپنے آخری مراحل میں ہے جسے امریکی کانگریس سے مشاورت کے بعد رواں ماہ کے آخر تک جاری کر دیا جائے گا۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے کہا کہ سینیٹر جان مک کین نے پاکستان اور افغانستان کے لیے نئی پالیسی مرتب دینے کے سلسے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا،افغانستان میں 4ہزار اضافی فوجی بھیجے گا

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر جان مک کین نے کانگریس میں وہ کوششیں کیں جن کی ہمیں ضرورت تھی اور بحیثیت چیئرمین آرمڈ سروسز کمیٹی ان کا بہترین کردار تھا۔

رواں ماہ کے آغاز میں سینیٹر میک کین نے اپنے دورہ پاکستان اور افغانستان کے دوران اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے۔

اپنے دورے کے دوران کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم نے پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ ہم اس سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ طالبان خصوصی طور پر حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کرے گا'۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا تو پھر امریکا کو بحیثیت قوم پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان ’غیر اعلانیہ جنگ‘ مسلط کررہا ہے، افغان صدر

بعد ازاں امریکی کانگریس نے پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مبینہ تعلقات پر پاکستان کی سول اور عسکری امداد روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔

امریکا نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو اپنے ہمسایہ ممالک میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے اس کے علاوہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی فوری رہا کرے۔

سیکریٹر اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ نئی حکمت عملی تمام امور کو ٹھیک کرتے ہوئے افغانستان میں انتہاپسندوں کے لیے سخت رد عمل کو ترتیب دے گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل ایچ آر مک ماسٹر اور ان کی ٹیم نئی پالیسی واضع کر رہی ہے اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ٹیم نے پاکستان اور افغانستان کے حکام سے بھی مشاورت کی۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے بجائے پرائیویٹ فوجی کونٹریکٹر کو بھیجنے کی میڈیا رپوٹس کی بھی تصدیق کی۔


یہ خبر 17 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی