نقطہ نظر

پھر پی ایس 114 سے کیا سبق سیکھا؟

صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 114 میں کون کون سی برادریاں آباد ہیں اور وہ کس طرح سوچتی ہیں؟

کراچی کے حلقے پی ایس 114 میں ضمنی انتخابات کے کانٹے کے مقابلے میں جب ہی پی پی پی امیدوار سعید غنی کی فتح واضح ہو گئی، تب مجھے پی پی پی کے ایک سینئر کارکن، جو دہائیوں سے پارٹی کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں، کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔

انہوں نے ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ، "سلام، پراچہ صاحب۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں سعید غنی جیت رہے ہیں، چناچنہ یہ ثابت ہو گیا کہ زرداری صاحب ٖغلط تھے کیوں کہ ایک ادنیٰ پی پی پی ورکر سعید غنی نے بااثر عرفان اللہ کی حمایت یافتہ پی ٹی آئی اور عرفان اللہ کے اثر و رسوخ کو شکست دے دی ہے، جبکہ زرداری مروت کو پارٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔"

پی پی پی نے کبھی بھی اس علاقے سے صوبائی نشست حاصل نہیں کی۔ جب میں نے ایس ایم ایس کرنے والے ورکر کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ، "حلقہ 114 میں رہائش پذیر مختلف لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ شناخت کے حامل لوگوں نے سعید غنی کو ووٹ دیا کیوں کہ وہ انہیں متوسط طبقے کے ایک عام آدمی کے طور پر دیکھتے ہیں جو پرعزم، بااخلاق اور پڑھا لکھا شخص ہے۔"

وڈیو دیکھیے: پی ایس 114: ووٹرز کا جوش و خروش

انہوں نے ایک بار پھر مجھے یاد دلایا کہ کس طرح پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری عرفان اللہ مروت کو پی پی پی میں شامل کرنے پر رضامند تھے، لیکن پھر زرداری کی دونوں بیٹیوں نے 1990 کی دہائی کے ایک اسکینڈل میں مروت کی مشتبہ شمولیت کی وجہ سے انہیں پارٹی میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ مروت 2013 کے انتخابات میں یہ نشست (مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر) جیتے تھے۔

حالانکہ سپریم کورٹ نے انتخابی فراڈ کرنے پر مروت کی رکنیت ختم کر دی تھی (اسی وجہ سے ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا)، لیکن پھر بھی مروت اس علاقے میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب پی ٹی آئی کے امیدوار ایم نجیب ہارون مروت کو پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تب زیادہ تر میڈیا تجزیہ نگاروں کو لگا کہ ضمنی انتخابات میں نجیب (کی کامیابی) کے امکانات کافی روشن ہیں۔

لیکن انتخابات کے حتمی نتائج نے بالکل ہی مختلف منظرنامہ پیش کر دیا۔ پی ٹی آئی صرف 5 ہزار 98 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جو کہ مسلم لیگ ن کے کمزور امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں (5 ہزار 353) سے بھی کم ہیں۔ میں پی پی پی کے جس سینئر کارکن سے فون پر بات کر رہا تھا، تو گفتگو کے دوران انہوں نے ایک بڑی ہی دلچسپ بات کہی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ، "عمران خان نے بھی زرداری کی طرح سوچنا شروع کر دیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ، "وہ (عمران خان) سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تمام حلقوں میں بااثر اور دولتمند 'لائق امیدواروں' کے ذریعے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ سچ نہیں۔ پی پی پی نے 1970 میں کئی عام کارکنان کو ٹکٹ دیے اور ان میں سے زیادہ تر کامیاب ہوئے۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو نے چند پرعزم کارکنان کو پارٹی ٹکٹ دیے اور وہ تمام فتح یاب ہوئے۔ بلاول (زرداری کے بیٹے) تو پرعزم اور عام کارکنان کو انتخابی میدان میں اتارنا چاہتے ہیں مگر ان کے والد اب بھی دولتمند امیدواروں کے پیچھے پڑے ہیں۔ بلاشبہ، ایسے امیدوار کئی حلقوں میں کافی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن کئی دیگر علاقوں کے ووٹرز انہیں مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ وہ (امیدوار) ان میں سے ایک نہیں ہوتا۔ لوگ بیوقوف نہیں ہیں۔"

پڑھیے: پاکستان میں انتخابات کی تاریخ

انہوں نے اپنا آخری جملہ (لوگ بیوقوف نہیں ہیں) بڑی ہی بلند آواز کے ساتھ زور دے کر بولا۔ ان کا اشارہ واضح طور پر ان افراد (خاص طور پر سوشل میڈیا پر موجود لوگوں) کی جانب تھا جو انتخابات میں اپنے امیدواروں کی ہار کے بعد ووٹرز پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ یہ مظہر کچھ حد تک نیا تھا۔

جب میں اپنی دونوں کتابوں (اینڈ آف دی پاسٹ اور دی پاکستان اینٹی ہیرو) کے لیے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے 1970 سے لے کر اب تک کے تحقیقی پیپرز اور اخباری مضامین پڑھ رہا تھا، تب میں نے کسی ایک جگہ پر بھی کسی مصنف، تبصرہ نگار یا مایوس ووٹر کی جانب سے یہ اقرار کرتے نہیں پایا کہ ووٹرز بیوقوف ہیں۔

لیکن حالیہ دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی پی ٹی آئی کا امیدوار انتخابات میں ناکام ہوتا ہے تو ان کے حامی، ووٹرز کو جاہل اور بے وقوف کہہ کر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور پارٹی کی سینئر قیادت اور امیدوار کارکنوں کی ان الزام تراشیوں کے بارے میں کچھ کہتے بھی نہیں۔

وہ ایسا کر بھی تو نہیں سکتے، آخر اس طرح ان کے ووٹرز کو دکھ پہنچ سکتا ہے اور ان کی 'ذہانت' کی بھی بے عزتی ہوگی۔

عمران خان نے ایک بار کچھ ایسا ہی بیان دینے کا جوکھم اٹھا لیا تھا، اور وہ بھی انتخابات سے قبل۔ ایک بار کراچی میں ضمنی انتخابات کے موقعے پر انہوں نے مہاجروں سے بھری ہوئی ریلی سے خطاب میں کہا کہ وہ لوگ 'زندہ لاشوں' کی طرح (ایم کیو ایم کو) ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس بات سے کراچی کے اکثریتی لسانی گروہ، مہاجروں، کو ٹھیس پہنچی لہٰذا انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو زبردست شکست سے دوچار کروایا۔

میرپورخاص سے تعلق رکھنے والے ایک سندھی شخص، جو 2012 سے 2015 تک میرے ڈرائیور بھی رہے، نے مجھے ایک بار بہت ہی دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ 2013 کے انتخابات سے قبل وہ (زیادہ تر سندھیوں کی ہی طرح) پی پی پی کا ووٹر رہے تھے، مگر اس بار وہ میرپورخاص میں جمعیت علماء اسلام (ف) کو ووٹ دینے جا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ (میرپورخاص کے مضافات میں واقع) اپنے چھوٹے سے گاؤں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ جے یو آئی (ف) کے امیدوار سے ناخوش ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ، "جب میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آخر ہوا کیا، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اس امیدوار (جو گاؤں کے ایک مدرسے سے منسلک تھا) نے تقریر کے دوران ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ انتخابات کے وقت بھیڑ بن جاتے ہو۔ اس امیدوار نے ایسا اس لیے کہا تھا کیوں کہ گاؤں والوں نے پی پی پی کو ووٹ دیے تھے۔"

پڑھیے: انقلابی الزامات اور انتخابات

انہوں نے بتایا کہ مدرسے سے وابستہ لوگ بھی اس بیان پر انتہائی برہم تھے اور پورا گاؤں، جو جے یو آئی (ف) کو ووٹ دینے کا منصوبہ بنا رہا تھا، ووٹ ڈالنے گیا اور ایک بار پھر سب نے پی پی پی کو ووٹ دیے۔

سعید غنی کو ایک خوش زبان، عاجز اور متوسط طبقے کا آدمی تصور کیا جاتا ہے — اور وہ مہاجر بھی ہیں۔ میں جس سینئر پی پی پی کارکن سے بات کر رہا تھا اس نے مجھے بتایا کہ، "سعید پی ایس 114 جیسے حلقوں کے لیے ہر طرح سے بہترین امیدوار ہے۔" دراصل ان کا مطلب کراچی کے چند ان حلقوں سے تھا جہاں بڑی تعداد میں مختلف لسانی اور مذہبی شناخت رکھنے والے لوگ رہائش پذیر ہیں۔

شہر کے بڑے بڑے علاقوں میں مہاجروں کی کافی زیادہ آبادی موجود ہے جو ایم کیو ایم — جو کہ کئی تنازعات میں شامل ہونے کے باجود بھی متوسط طبقے کے مرد و خواتین کو اسمبلیوں میں بھیج رہی ہے— کے روایتی ووٹرز ہیں۔

لیکن، پی ایس 114 کراچی کے چند کثیراللسانی گروہوں والے قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے ایک این اے 251 کا حصہ ہے۔ این اے 251 میں بھی کراچی کے ایک بڑے حلقے 250 کی طرح مہاجروں، پختونوں، پنجابیوں، بلوچوں اور سندھیوں کی مکس آبادی رہتی ہے۔ یہاں ہندوؤں اور عیسائیوں کا ایک بڑا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔

ایم کیو ایم کی پی ایس 114 میں 1990، 1993 اور 2008 کے انتخابات میں کامیابی کے پیچھے ایک تو مہاجر ووٹ بینک تھا اور دوسرا علاقے میں موجود شیعہ، عیسائی اور ہندو گروہوں کے ساتھ قائم ایم کیو ایم کے اچھے ورکنگ تعلقات۔

عرفان اللہ مروت نے 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اس علاقے میں ایم کیو ایم کو شکست دی — انہیں زیادہ تر ووٹ علاقے کے پختون اور پنجابی ووٹرز اور ایم کیو ایم سے مایوس عیسائی اور ہندو گروہوں نے دیے تھے۔

حالانکہ رواں سال کے ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ صرف 30 فیصد تھا، مگر انتخابات کے ماہر تبصرہ نگار، جیسے دی نیوز کے ضیاء الرحمان کے مطابق سعید غنی کو نہ صرف پی پی پی کا روایتی — سندھی اور بلوچ — ووٹ ملا بلکہ وہ تھوڑے بہت مہاجر/ایم کیو ایم ووٹرز اور مروت کے پختون ووٹ بینک، جن سے پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کی توقع کی جا رہی تھی، کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ سعید غنی نے علاقے کے اکثر عیسائیوں اور ہندوؤں کے ووٹ بھی حاصل کیے، اس کے علاوہ شیعہ اور 'بریلویوں’ نے بھی انہیں ووٹ دیے۔

پی پی پی کے سینئر کارکن نے مجھے بتایا کہ، "غنی ایک عالمگیر شخص ہے۔" انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام اس جملے کے ساتھ کیا کہ، "غنی مذہب، اپنی لسانی شناخت یا اپنے طبقے کے بارے میں بات نہیں کرتا، وہ صرف اپنے منصوبوں کے بارے میں بات کرتا ہے اور یہی بات پی ایس 114 جیسے حلقوں کی مکس آبادی کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔"

یہ مضمون 16 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔