پاکستان

وزیراعظم کے خلاف 15 مقدمات دوبارہ چلانے کی تجویز

جے آئی ٹی رپورٹ میں نواز شریف کے خلاف 1994 سے 2011 کے درمیان قائم 15 مقدمات دوبارہ کھولنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس میں شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 5 مقدمات دوبارہ کھولنے کی تجویز دی ہے جن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سنایا جاچکا ہے۔

جے آئی ٹی نے نواز شریف کے خلاف 8 تحقیقات اور دو انکوئریز بھی دوبارہ چلانے کی تجویر اپنی پورٹ میں پیش کی ہے۔

اس حوالے سے 15 مقدمات نواز شریف کے خلاف قائم کیے گئے تھے، جن میں سے 3 مقدمات 1994 سے 2011 کے درمیان پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور 12 مقدمات سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں درج کیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ شریف خاندان کے لندن اپارٹمنٹ سے متعلق کیس ان 8 تحقیقات کا حصہ ہیں جو دسمبر 1999 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شروع کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے 20 اپریل کے فیصلے میں جے آئی ٹی کو منی ٹریل اور لندن فلیٹس کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی جبکہ عدالت کے دیگر 12 سوالات گلف اسٹیل مل، قطری خط، آف شور کمپنیوں اور دیگر معاملات کے حوالےسے تھے۔

عدالت نے ٹیم کو اجازت دی تھی کہ وہ اس حوالے سے پہلے سے موجود ایف آئی اے اور نیب کے ریکارڈ کو استعمال کرسکتی ہے جو انہیں تحقیقات میں مدد دے سکتے ہیں۔

عدالت نے ٹیم، جس میں فیڈرل انویسٹی گیسن ایجنسی (ایف آئی اے)، نیب، اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا ایک ایک رکن شامل ہیں، کو اجازت دی تھی کہ وہ اس حوالے سے پہلے سے موجود ایف آئی اے اور نیب کے ریکارڈ کو استعمال کرسکتی ہے جو انہیں تحقیقات میں مدد دے سکتے ہیں۔

لندن اثاثوں کے حوالے سے 18 سال سے جاری تحقیقات کے حوالے سے جے آئی ٹی نے 3 نیب ریفرنسز اور دو ایف آئی اے مقدمات کو دوباری کھولنے کی تجویز بھی دی، جو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔

1994 میں ایف آئی اے کی جانب سے نواز شریف کے خلاف درج کیے گئے کیس ’میاں محمد نواز شریف نے حدیبیہ انٹر پرائزز پرائیوٹ لمیٹڈ میں جعلی اکاؤنٹس کھلوا کر غلط طریقے سے قرضہ حاصل کیا‘ کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے صرف مذکورہ کیس کی تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کے دائرکار پر بات کی گئی ہے ۔۔۔۔ تاہم ایک فرد کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کھلوانے سے متعلق سوالات کے جوابات پیش نہیں کیے گئے‘۔

رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ ’ان مقدمات کو مناسب ٹرائل کے بغیر ختم کیا گیا جبکہ ریکارڈ کے حوالے سے ثبوت فراہم کرنے کا موقع نہیں دیا گیا‘۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ختم کیے جانے والے ایک اور نیب کے کیس، جو سیف الرحمٰن اور نواز شریف کے خلاف، ہیلی کاپٹر کی خریداری سے متعلق تھا جبکہ یہ کیس ایف آئی اے کی جانب سے درج کیا گیا تھا، جے آئی ٹی نے اس کیس کو بھی دوبارہ کھولنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس میں مزید تحقیقات ہوسکتیں ہیں‘۔

حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’یہ ایک بہترین تحقیقاتی ریفرنس تھا جس کے ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا گیا اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر ختم کردیا گیا‘۔

2014 میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ختم کیے گئے شریف خاندان کے اثاثوں سے متعلق ریفرنس کے حوالے سے جے آئی ٹی نے زور دیا کہ اس کیس میں نامزد ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، ٹیم نے عدالت عظمیٰ کو تجویز دی کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ مذکورہ کیس میں شریف خاندان کی رہائی کے خلاف اپیل دائر کرے۔

جے آئی ٹی نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ نیب کو لندن اثاثوں کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم بھی دیا جائے۔

اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ، 90 کی دہائی میں ایف آئی اے میں وزیراعظم کی جانب سے 42 ملازمین کی بھرتیوں سے متعلق کیس، راولپنڈی میں اور اس کے اطراف میں زمین پر قبضے، راولپنڈی روڈ پر تعمیرات، شریف ٹرسٹ کے حوالے سے لیے گئے فنڈز، تنخوا سے زائد اثاثوں اور غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کی دوبارہ تحقیقات کا حکم بھی دے۔

سپریم کورٹ کو یہ تجویز بھی دی گئی کہ وہ ایس ای سی پی کو شریف خاندان کی ملکیت میں موجود چوہدری شوگر ملز کے حوالے سے مبینہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی ہدایت کی جائے۔


یہ رپورٹ 16 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی