امریکی دفاعی پالیسی بل پاس، پاکستانی امداد میں کمی کی دفعات شامل
واشنگٹن: امریکی ایوانِ نمائندگان نے مالی سال 2018 کے لیے 696 ارب ڈالر کے بھاری حجم کا دفاعی پالیسی بل پاس کردیا۔
اس بل کا حجم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بجٹ اضافے میں کی گئی درخواست سے کہیں زیادہ ہے جبکہ یہ طویل عرصے سے محدود قومی دفاعی اخراجات کے خاتمے کا سبب بھی بنے گا۔
دفاعی پالیسی بل کے حتمی مسودے پر جمعہ (14 جولائی ) کے روز ایوان نمائندگان میں بل کے حق میں 344 جبکہ مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے۔
خیال رہے کہ فیصلہ کن انداز میں منظور ہونے والے اس بل میں پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد پر پابندیاں سخت کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جمعرات (13 جولائی) کو امریکی کانگریس کے ایک اہم پینل نے پاکستان کے لیے امریکی سول اور عسکری امداد کو افغان طالبان کے خلاف جنگ سے مشروط کرنے کے حوالے سے سماعت کا آغاز کیا تھا، خارجہ امور کے اس بل کو ووٹنگ کے لیے فُل ہاؤس بھیجا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کیلئے کانگریس کی سخت شرائط
واضح رہے کہ دفاعی بل مالی سال 2018 میں دفاعی اخراجات پر 696 ارب ڈالر تک استعمال کی اجازت دیتا ہے، جبکہ اس میں پینٹاگون کے اہم ترین آپریشنز کے لیے امریکی صدر کی درخواست پر تقریباً 30 ارب ڈالر زائد رقم مختص کی گئی ہے۔
مذکورہ بل 2011 بجٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت دفاعی اخراجات کی مقررہ 549 ارب ڈالر کی حد سے بھی 72 ارب ڈالر زائد ہے۔
مجموعی طور پر بل باقاعدہ صوابدیدی اور سمندر پار ہنگامی آپریشنز (او سی او) کے لیے 47.4 ارب ڈالر فراہم کرتا ہے جو مالی سال 2017 کے لیے مقررہ حد سے 10 ارب ڈالر کم ہے۔
واضح رہے کہ 10 ارب ڈالر کی اس کمی کے بعد او سی او فنڈنگ کا بجٹ 12 ارب ڈالر ہوجاتا ہے، جو عراق، افغانستان اور پاکستان میں جاری آپریشنز اور امداد پر خرچ کیا جانا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں بل کے جاری ہونے والے متن کے مطابق، دفاعی پالیسی بل میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو اسلام آباد کی جانب سے حقانی نیٹ ورک اور جنوبی ایشیائی خطے میں موجود دیگر عسکری گروپس کی مبینہ مدد کو روکنے سے مشروط کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں اعلیٰ امریکی حکام اور قانون ساز پاکستان کو واضح پیغام دے چکے ہیں کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کے خاتمے میں امریکا اور افغان حکومت کی مدد کرے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر غور کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
تاہم امریکی حکام اور قانون سازوں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا آپشن بھی دے رکھا ہے۔
رواں سال اپریل میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے برسلز میں امریکی نیٹو اتحادی ممالک کو آگاہ کیا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کا اہم ترین مقصد ہے۔
دوسری جانب 20 جنوری سے اقتدار سنبھالنے والی ٹرمپ انتظامیہ تاحال اپنی پاک-افغان پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔
اس پالیسی کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والی حالیہ معلومات کے مطابق نئی حکمت عملی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے کی تجویز دے گی۔
ایک حالیہ نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمٹ ہیتھر نویرٹ نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم کی کٹیگری میں شامل کرنے سے گریز کیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ طالبان کو دہشت گرد قرار دے گی، ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری افغان پالیسی پر جائزہ ابھی جاری ہے اور اس کا اب تک اعلان نہیں کیا گیا ہے'۔
یہ خبر 15 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔